السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک حدیث بیان کی جاتی ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو ان کی ماؤں کے نام سے پکارا جائے گا تاکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر پردہ پوشی کرے، اس حدیث کی وضاحت کریں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سوال میں ذکر کردہ حدیث موضوع اور خود ساختہ ہے جیساکہ علامہ سیوطی نے لکھا ہے کیونکہ اس کی سند میں ابوحذیفہ اسحاق بن بشیر نامی راوی متروک ہے۔[1]
اس راوی کے متعلق ابن حبان لکھتے ہیں کہ یہ ثقہ راویوں کے نام پر احادیث وضع کیا کرتا تھا۔[2]
ایک روایت میں امہاتہم کے الفاظ کے بجائے اسمائھم کے الفاظ ہیں۔[3]
اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو قیامت کے دن ان کے ناموں سے ہی آواز دی جائے گی۔ بہر حال روایت کے الفاظ اسمائھم ہوں یا امہاتہم ، یہ موضوع اور بناوٹی ہیں ، جب دنیا میں کسی کو پکارا جاتا ہے تو اسے باپ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے تو قیامت کے دن اسی قانون کے مطابق آواز دی جائے گی، کسی انسان کی غلط کاری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اپنے قانون کو تبدیل نہیں کرے گا، چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاط قائم کیا ہے: ’’ باب ما یدعی الناس بابآئھم‘‘[4] ’’ لوگوں کو ان کے باپوں کے نام سے پکارا جائے پھر اس عنوان کو ثابت کرنے کے لئے ایک حدیث پیش کی ہے جسے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیاہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ قیامت کے دن غداری کرنے والے کے لئے ایک جھنڈا نصب کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ فلاں کے بیٹے فلاں کی غداری ہے۔‘‘ [5]
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن انسان کو اس کے باپ کےنام سے آواز دی جائے گی ، صرف حضرت آدم علیہ السلام اور حضر ت عیسیٰ اس سے مستثنیٰ ہوں گے۔ ( واللہ اعلم)
[1] اللالی المصنوعه ص ۴۴۹ ج۲۔
[2] المجروحین ص ۱۳۵ج۱۔
[3] مجمع الزوائد ص ۵۳۹ ج۱۰۔
[4] صحیح بخاری، الادب: باب نمبر ۹۹۔
[5] صحیح بخاری ، الادب : ۶۱۷۷۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب