السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سعودی عرب کے ’’ الیوم الوطنی‘‘ کے موقع پر آپ پاکستانی قوم کو کوئی پیغام دینا چاہتے ہیں تو اس کی وضاحت کریں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عالم اسلام میں صرف دو حکومتیں ایسی ہیں جو ایک نظریے کی بنیاد پر قائم ہوئی ہیں، ان کا تعلق جغرافیائی حدود و قیود سے نہیں ہے، پہلی حکومت جو نظریہ توحید پر قائم ہوئی وہ حکومت سعودیہ ہے ، آج تک یہ حکومت توحید اور اس کے تقاضوں کو پورا کر رہی ہے، اس کے متعلق کسی قسم کی مداہنت یا مفاہمت نہیں کی گئی ، اللہ تعالیٰ نے توحید کے تحفظ کے پیش نظر اسے ہر قسم کے دنیاوی وسائل سے مالا مال کر رکھا ہے۔ دوسری حکومت جو ایک نظریہ کی مرہون منت ہے وہ حکومت پاکستان ہے، اس کی بنیاد بھی لا الٰہ الا اللّٰہ ہے، یہ فقرہ تو زبان زد خاص و عام ہے کہ ’’ پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ‘‘ لیکن ہمیں بد قسمتی سے ایسےحکمران ملے ہیں جنہیں ذاتی مفادات اور اقرباء نوازی کے علاوہ کسی دوسرے کام کے لئے فرصت نہیں ہے۔ ملک بھر میں کفر و شرک کے اڈے موجود ہیں، فحاشی اور بے حیائی کھلے بندوں ہوتی ہے لیکن اس کی روک تھام کے لئے ہمارے ہاں کوئی قانون نہیں ہے جبکہ حکومت سعودیہ آج بھی اپنے نظریہ توحید پر قائم ہے اور توحید کے تحفظ کے لئے ہر قسم کی قربانی دیتی ہے، اس حکومت کو عوام سے کس قدر ہمدردی ہے، صرف ایک واقعہ بیان کرتاہوں۔
1974ء کی بات ہے کہ میرا داخلہ مدینہ یونیورسٹی میں ہوا ، سالانہ تعطیلات میں پاکستان آنے کی بجائے میں نے وہاں رہنے کا پروگرام بنایا، تین ماہ چھٹیوں کا وظیفہ مبلغ پندرہ سو ریال جیب میں ڈال کر عمرہ کی ادائیگی کے لئے مکہ مکرمہ آیا ، دوران طواف کسی نے میرا وظیفہ چرا لیا، اس پر مجھے بہت پریشانی ہوئی ، اس وقت شاہ فہد مرحوم مدینہ یونیورسٹی کے چانسلر تھے، میں نے ٹوٹی پھوٹی عربی میں انہیں خط لکھا: ’’ میں مدینہ یونیورسٹی کا ایک طالب علم ہوں اور دوران طواف کسی نے میرے مبلغ پندرہ سو ریال چرا لیے ہے، اگر آپ ہمارا تحفظ نہیں کر سکتے تو اس عہدے پر فائز رہنے کا چنداں فائدہ نہیں ہے۔ والسلام ‘‘
خط لکھنے کے دس دن بعد میں واپس مدینہ طیبہ گیا تو معلوم ہوا کہ یونیورسٹی میں ہر روز ایک ہر کارہ آتا ہے اور آپ کے متعلق پوچھ کر چلا جاتا ہے، اگلے دن میں نائب رئیس کے دفتر میں گیا تو وہ میرے انتظار میں تھے، انہوں شاہ فہد کی طرف سے آیا ہوا پندرہ سو ریال کا چیک دیا اور یونیورسٹی کی طرف سے ایک شکریے کے خط پر دستخط لئے اور کہا کہ مدینہ طیبہ کے کسی بھی بینک میں جا کرمبلغ پندرہ سو ریال وصول کر سکتے ہیں ۔ میں نے آتے ہی بنک میں چیک جمع کرایا اور اسی وقت مذکورہ رقم وصول کر لی۔
اس طرح یہ حکومت آج تک اپنے نظریے توحید پر قائم ہے اور اسے کسی بھی موقع پر اپنے مفادات کے لئے استعمال نہیں کرتی، اس سلسلہ میں ایک واقعہ پیش خدمت ہے:
جب عراق نے سعودیہ کے دارالحکومت ریاض پر حملہ کیا تو اس وقت پاکستانی عوام ایک عجیب و غریب کیفیت سے دو چار ہوئے، ہر جگہ عراق کی حمایت میں سعودیہ کے خلاف جلوس نکلنا شروع ہوئے ہم چونکہ وزارت اوقاف سعودی عرب کی طرف سے پاکستان میں بحیثیت داعی اور مبلغ مبعوث ہیں، اس لئے ہم نے سعودیہ کے موقف کی تائید میں اپنے جذبات سے اپنے ڈائریکٹر شیخ عبد العزیز العتیق حفظہ اللہ کو آگاہ کیا۔ انہوں نے ہمارے جذبات وزارت اوقاف کو پہنچائے تو درج ذیل جواب آیا: ’’ وزارت نے آپ حضرات کی تعیناتی توحید کی آبیاری کے لئے ہے، آپ اپنا کام خلوص نیت سے جاری رکھیں، ہمارے دفاع یا ہماری تائید کے لئے ہم آپ کو گلی کوچوں میں نکلنے کی اجازت نہیں دیتے، اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ والسلام
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت سعودیہ کو اپنے اللہ پر کس قدر یقین محکم ہے ، وہ توحید کی ترویج و اشاعت کے لئے جو خرچ کرتی ہے اس کے عوض اپنا دفاع یا اپنی تائید اسے قطعاً ناپسند ہے اس حوالے ہم اپنے قارئین کرام کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ ممکن حد تک حکومت سعودیہ کی تائید کرتے رہیں اور اس کے لئے دعاؤں کا سلسلہ بھی جاری رکھیں کہ اللہ تعالیٰ اسے قائم و دائم رکھے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ کچھ شر پسند عناصر حکومت سعودیہ کے خلاف سرگرم عمل ہیں اور حرمین شریفین کو کھلا علاقہ قرار دینے کے لئے بے چین و بے تاب ہیں، تاکہ وہ وہاں اپنی مرضی سے بدعات ، خرافات کو رواج دے سکیں، ہمیں امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن کا یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہونے دیں گے۔ ان شاء اللہ
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب