سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(505) حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی ٹوپی میں متبرک بال

  • 20768
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 2334

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

یہ واقعہ مشہور ہے کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی ٹوپی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال رکھے ہوئے تھے جن کی وجہ سے انہیں ہر میدان میں فتح ہوتی تھی ، اس کی وضاحت درکارکر ہے ؟

 ہمارے خطباء حضرات اپنی تقاریر میں یہ واقعہ بکثرت بیان کرتے ہیں کہ جب جنگ یرموک ہوئی تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی ٹوپی وہاں گم ہو گئی ، تلاش بسیار کے بعد وہ مل گئی، جس سے آپ کو اطمینان اور سکون میسر آیا، آپ کے ساتھیوں نے اس کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب عمرہ کیا تو اپنے بال منڈوائے، اس وقت لوگوں نے آپ کے موئے مبارک لینے کے لئے جلدی کی، میں نے آپ کی پیشانی کے بال حاصل کر لئے پھر میں نے ان بالوں کو اس ٹوپی میں رکھ دیا۔

ہر میدان جنگ میں اس ٹوپی کو پہن لیتا ہوں، اللہ تعالیٰ ان کی برکت سے مجھے فتح و نصرت سے ہمکنار کرتا ہے۔‘‘[1]

لیکن یہ واقعہ محدثین کرام کے قائم کردہ معیار صحت پر پورا نہیں اترتا، کیونکہ اس کی سند میں ایک راوی جعفر بن عبد اللہ بن حکم ہے جو خود تو ثقہ ہے لیکن حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے اس کی ملاقات ثابت نہیں ہے، اگرچہ کچھ محدثین نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے لیکن اس کی سند منقطع ہے جیسا کہ علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے صراحت کی ہے۔[2]  

علامہ بیہقی نے بھی اس کے منقطع ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے، آپ فرماتے ہیں: اس روایت کو امام طبرانی اور ابو یعلی نے بیان کیا ہےا ور ا س کے راوی بھی ’’ صحیح ‘‘ کے راوی ہیں، اس کے علاوہ جعفر کا متعدد صحابہ کرام سے سماع بھی ثابت ہے لیکن مجھے معلوم نہیں ہے کہ انہوں نے حضرت خالد بن ولید سے سنا ہے یا نہیں۔ [3]

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے اس واقعہ کو سننا تو درکنار بلکہ ان کا حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی زندگی میں پیدا ہونا بھی ثابت نہیں، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ۲۲ ہجری کے لگ بھگ فوت ہوئے تھے، جو صحابہ کرام دیر سے فوت ہوئے ہیں ، اگرچہ ان سے اس کا سماع ثابت ہے لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انہوں نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے بھی ملاقات کی ہے یا ان سے کچھ احادیث سنی ہیں۔

بہر حال یہ روایت منقطع ہونے کی وجہ سے قابل حجت نہیں ، ہم کراماتِ اولیاء کے قائل ہیں لیکن حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی مذکورہ کرامت صحیح سند سے ثابت نہیں ہے اگرچہ ہمارے خطباء حضرات اسے بڑی شدو مد سے بیان کرتے ہیں۔( واللہ اعلم)


[1]   مستدرك حاکم ص ۲۹۹ ج۳۔

[2] مستدرك حاکم ص ۲۹۹ ج ۳۔

[3] مجمع الزوائد ص ۳۴۹ ج۹۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہمارے خطباء حضرات اپنی تقاریر میں یہ واقعہ بکثرت بیان کرتے ہیں کہ جب جنگ یرموک ہوئی تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی ٹوپی وہاں گم ہو گئی، تلاش بسیار کے بعد وہ مل گئی، جس سے آپ کو اطمینان اور سکون میسر آیا، آپ کے ساتھیوں نے اس کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب عمرہ کیا تو اپنے بال منڈوائے، اس وقت لوگوں نے آپ کے موئے مبارک لینے میں جلدی کی، میں نے آپ کی پیشانی کے بال حاصل کر لئے پھر میں نے ان بالوں کو اس ٹوپی میں رکھ دیا۔ ہر میدان جنگ میں اس ٹوپی کو پہن لیتا ہوں، اللہ تعالیٰ ان کی برکت سے مجھے فتح و نصرت سے ہمکنار کرتا ہے۔" (مستدرک حاکم ص299ج3)

لیکن یہ واقعہ محدثین کرام کے قائم کردہ معیار صحت پر پورا نہیں اترتا، کیونکہ اس کی سند میں ایک راوی جعفر بن عبداللہ بن حکم ہے جو خود تو ثقہ ہے لیکن حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے اس کی ملاقات ثابت نہیں ہے، اگرچہ کچھ محدثین نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے لیکن اس کی سند منقطع ہے جیسا کہ علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے صراحت کی ہے۔ (مستدرک حاکم ص299ج3)

علامہ بیہقی نے بھی اس کے منقطع ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے، آپ فرماتے ہیں: اس روایت کو امام طبرانی اور ابو یعلیٰ نے بیان کیا ہے اور اس کے راوی بھی "صحیح" کے راوی ہیں، اس کے علاوہ جعفر کا متعدد صحابہ کرام سے سماع بھی ثابت ہے لیکن مجھے معلوم نہیں ہے کہ انہوں نے حضرت خالد بن ولید سے سنا ہے یا نہیں۔ (مجمع الزوائد ص349ج9)

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے اس واقعہ کو سننا تو درکنار بلکہ ان کا حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی زندگی میں پیدا ہونا بھی ثابت نہیں، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں 22 ہجری کے لگ بھگ فوت ہوئے تھے، جو صحابہ کرام دیر سے فوت ہوئے ہیں، اگرچہ ان سے اس کا سماع ثابت ہے لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انہوں نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے بھی ملاقات کی ہے یا ان سے کچھ احادیث سنی ہیں۔

بہرحال یہ روایت منقطع ہونے کی وجہ سے قابل حجت نہیں، ہم کراماتِ اولیاء کے قائل ہیں لیکن حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی مذکورہ کرامت صحیح سند سے ثابت نہیں ہے اگرچہ ہمارے خطباء حضرات اسے بڑی شدومد سے بیان کرتے ہیں۔ (واللہ اعلم)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:441

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ