السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرے پیٹ میں کینسر ہے ، ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ہے، آج کل بہت تکلیف کا شکار ہوں، بعض اوقات تنگ دل ہو کر اپنے اللہ سے فریاد کرتی ہوں کہ وہ میری زندگی کا خاتمہ کر دے ، کیا ایسے مایوس کن حالات میں اللہ تعالیٰ سے اپنی موت کی دعا کی جا سکتی ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ماری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت و سلامتی سے نوازے اور آپ کا خاتمہ ایمان پر کرے، کسی مصیبت کے پیش نظر موت کی آرزو کرنا شرعاً ناجائز اور حرام ہے، حضرت خباب رضی اللہ عنہ کے پیٹ میں زخم تھے، انہیں سات مرتبہ آگ سے داغ دیا گیا، پھر بھی آرام نہ آیا۔ وہ فرماتے ہیں کہ اگر رسول اللہ نے ایسے حالات میں موت کی دُعا کرنے سے منع نہ کیا ہوتا تو میں ضرور موت کے لئے اللہ سے دعا کرتا۔[1]
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص بھی اس مصیبت کی وجہ سے جو اسے پہنچی ہے موت کی تمنا نہ کرے اگر اسے ضرور ہی کرنا ہے تو یوں کہہ لے : ’’ جب تک میرے لئے زندگی بہتر ہے مجھے زندہ رکھ اور جب میرے لئے موت بہتر ہو مجھے موت دے دینا۔[2]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں مزید وضاحت ہے کہ تم میں سے کوئی بھی موت کی آرزو نہ کرے کیونکہ اگر وہ نیک ہے تو شاید اس کی بقیہ زندگی نیکیوں میں اضافے کا باعث ہو اور اگر برا ہے تو شاید اسے توبہ کی توفیق مل جائے۔[3]
ان احادیث کے پیش نظر کسی بھی شخص کے لئے جائز نہیں کہ وہ موت کی دعا کرے یا موت کی آرزو کرے ، ایسے شخص کو چاہیے کہ وہ صبر کرے اور اللہ تعالیٰ سے حسن ثواب کی امید رکھے، حالات کی بہتری کے لئے درج ذیل حدیث کو سامنے رکھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جان لیں کہ ناپسندیدہ چیزوں پر صبر کرنے میں بہت سی خیر و برکت ہے، یقیناً مدد، صبر کے ساتھ اور کشادگی مصیبت کے ساتھ وابستہ ہے، یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔[4]
ہر مصیبت زدہ شخص کو یقین رکھنا چاہیے کہ دنیا کے مصائب و آلام اس کی گذشتہ خطاؤں کا کفارہ بن سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں تلقین کی ہے کہ ایسے حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھا جائے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ اے پیغمبر ! آپ صبر کرنے والوں کو خوشخبری دیں وہ لوگ جب انہیں کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ کہتے ہیں۔ ہم سب اللہ کے ہیں اور ہمیں اس کی طرف لوٹنا ہے۔[5]
جو انسان اپنی مشکلات کا حل ، اپنی موت کو سمجھتا ہے اس کی یہ غلط فکر ہے کیونکہ بسا اوقات مرنے کے بعد اللہ کے ہاں عذاب میں گرفتار ہو جاتا ہے جو دنیا کے مصائب سے کہیں بڑھ کر ہوتا ہے، اس کے برعکس اگر انسان زندہ رہے تو شاید اللہ تعالیٰ اسے توبہ اور استغفار کی توفیق عطا کر دیتا اور یہ توفیق اس کے لئے قیامت کے دن خیر و برکت کا پیش خیمہ ہوتی، لہٰذا ہم آخر میں یہی کہتے ہیں کہ بیماری اور مصیبت کے وقت صبر و استقامت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: بے شک تنگی کے ساتھ آسانی ہے، یقینا تنگی کے ساتھ آسانی وابستہ ہے۔[6]
[1] صحیح بخاری ، الدعوات : ۶۳۵۰۔
[2] صحیح بخاری ، المرضی : ۵۶۷۱۔
[3] الصحیح ، المرضی : ۵۶۷۳۔
[4] مسند امام احمد ص ۳۰۷ ج۱۔
[5] البقرة: ۱۵۵۔۱۵۶۔
[6] الانشراح : ۵۔۶۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب