السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرا یہ معمول ہے کہ میں فجر اور مغرب کی نماز کے بعد کسی سے ہم کلام ہونے سے پہلے یہ دُعا پڑھتا ہوں: ’’اللھم اجرني من النار‘‘ اے اللہ ! مجھے آگ سے پناہ عطا فرما۔ لیکن ہمارے امام مسجد نے مجھے بتایا ہے کہ اس حدیث کی سندکمزور ہے، آپ اس کی وضاحت فرمائیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مذکورہ دعا مولانا عطا ء اللہ حنیف نے ’’ پیارے رسول کی پیاری دعائیں ‘‘ میں صبح و شام کے وقت کی دعائیں کے زیر عنوان چودھویں حدیث کے تحت لکھی ہے اور مشکوٰۃ المصابیح کا حوالہ دیا ہے، صاحب مشکوٰۃ نے ابو داؤد سے نقل کی ہے، اس پر علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’ و إسنادہ ضعیف ‘‘لکھا ہے، غالباً مذکورہ امام مسجد نے انہی الفاظ کو بنیاد بنا کر اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے، یہ روایت درج ذیل کتب حدیث میں مروی ہے: ٭ ابو داؤد ، الصلوٰۃ : ۵۰۷۹ ، ٭ امام احمد ص ۲۳۴ ج۴، ٭ صحیح ابن حبان حدیث نمبر : ۲۳۴۶۔ اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اسے حسن قرار دیا ہے۔[1]
لیکن مسلم بن حارث رضی اللہ عنہ سے بیان کرنے والا اس کا بیٹا حارث بن مسلم مجہول ہے، اس لئے یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ خود ہی فرماتے ہیں: اگرچہ ابن حبان نے اس روایت کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے لیکن دارقطنی نے اس کے راوی حارث بن مسلم کو مجہول قرار دیا ہے اور وہ اپنے باپ سے بیان کرنے میں منفرد ہے، اس لئے ابن حبان کا اسے صحیح کہنا بہت بعید ہے۔[2]
علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر سیر حاصل بحث کی ہے، لہٰذا اس دعا کے بجائے کثرت کے ساتھ یہ دعا پڑھی جائے:
’’ اللھم أعوذبك من النار‘‘ کیونکہ حدیث میں ہے جو شخص اللہ تعالیٰ سے آگ کی پناہ مانگتا ہے تو خود آگ کہتی ہے کہ اے اللہ! اسے آگ سے پناہ دے۔ [3] اس کی سند بھی صحیح ہے۔ ( واللہ اعلم)
[1] نتائج الافکار ص ۳۱۰ ج۲۔
[2] تہذیب ص ۱۱۳ ج۱۰۔
[3] مسند امام احمد ص ۲۰۸ ج۳۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب