سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(485) ابلیس جن تھا یا فرشتہ؟

  • 20748
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1607

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ابلیس کے متعلق وضاحت درکار ہے کہ وہ جن تھا یا فرشتہ کچھ لوگ بعض آیات کے پیش نظر فرشتہ ثابت کرتے ہیں، قرآن و حدیث کی روشنی میں اس مسئلہ کو حل کریں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 اس قسم کے سوالات کا ہماری عملی زندگی سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے، ہم نے متعدد مرتبہ اپنے معزز قارئین کرام سے گذارش کی ہے کہ ایسے سوالات دریافت کئے جائیں جن کا ہماری عملی زندگی سے تعلق ہے تاہم اس وضاحت کے بعد مذکورہ سوال کے متعلق ہماری گزارشات حسب ذیل ہیں:سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا ہے، ابلیس کو آگ کے تیز شعلے سے اور حضرت آدم کو اس مٹی سے پیدا کیا گیا جس کی حالت تمہارے سامنے بیان کی گی ہے۔[1]

ایک روایت میں ابلیس کے بجائے جنات کی پیدائش کا ذکر ہے۔[2]

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ابلیس، فرشتوں سے نہیں ہے بلکہ جنات سے ہے جنہیں شعلے والی آگ سے پیدا کیا گیا ہے، جو اہل علم کہتے ہیں کہ ابلیس، فرشتوں میں سے تھا، ان کے پاس کوئی صحیح اور صریح دلیل نہیں بلکہ اس آیت سے استنباط کرتے ہیں : ’’ جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے علاوہ سب فرشتوں نے انہیں سجدہ کیا ۔‘‘ [3]

ان حضرات کا کہنا ہے کہ ابلیس فرشتوں میں سے تھا کیونکہ آدم کو سجدہ کرنے کا حکم بھی فرشتوں کو دیا گیا تھا، لیکن اس دلیل میں کوئی وزن نہیں ہے کیونکہ وہ اصل کے اعتبار سے تو جنات کی جنس سے تھا لیکن اپنی عبادت گزاری کی کثرت کی بنا پر فرشتوں میں گھلا ملا رہتا تھا چنانچہ ایک دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ تم آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کیا یہ جنوں سے تھا، اس نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی۔ ‘‘ ( الکہف : ۵۰)

اس آیت سے صراحت کے ساتھ معلوم ہوتا ہے کہ ابلیس جنوں سے تھا اورفرشتوں میں سے نہیں تھا اگر وہ فرشتوں سے ہوتا تو اسے حکم الٰہی سے سرتابی کی مجال ہی نہ ہوتی کیونکہ فرشتوں کے متعلق حکم الٰہی ہے: ’’ وہ اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ وہی کچھ کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاناہے۔‘‘ [4]

اس پر ایک اشکال ہے کہ جب وہ فرشتہ نہیں تھا تو پھر اللہ تعالیٰ کے حکم کا مخاطب ہی نہیں تھا کیونکہ حکمِ سجدہ کے مخاطب تو فرشتے تھے، اس کا جواب یہ ہے کہ جب وہ فرشتوں کے ساتھ ہی رہتا تھا تو ان کے ساتھ ہی حکم میں شامل تھا ، اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے اسے خصوصی طور پر آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تھا جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’ جب میں نے تجھے حکم دیا تھا تو پھر تو نے سجدہ کیوں نہ کیا۔‘‘[5]

بہر حال ہمارے رجحان کے مطابق ابلیس فرشتوں سے نہیں تھا بلکہ یہ جنات کی جنس سے تھا، ہمارے اس رجحان کی درج ذیل وجوہات ہیں: 1  قرآن مجید میں اس کی صراحت ہے، 2  حدیث میں ابلیس کی پیدائش آگ سے اور فرشتوں کی نور سے بیان کی گئی ہے۔ 3 فرشتوں کی اولاد نہیں ہوتی جبکہ ابلیس کی اولاد کا ذکر قرآن میں ہے۔ [6] 4  فرشتے اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے جبکہ ابلیس نے اس کے حکم سے سرتابی کی۔ ( واللہ اعلم)


[1] صحیح مسلم، الزھد : ۷۴۷۵۔

[2] کتاب التوحید لابن مندة ص ۲۰۸ج۱۔

[3] البقرة: ۳۴۔

[4] التحریم : ۶۔

[5] الاعراف: ۱۲۔

[6] الکہف: ۵۰۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:428

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ