السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ مرد حضرات ہی دم کرتے ہیں، کیا عورت بھی یہ کام کر سکتی ہے، اگر عورت اپنے بچوں یا خاوند پر دم کرے تو کیا یہ جائز ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں جواب دیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
دم کرنے کے سلسلہ میں شرعی اعتبار سے کوئی پابندی نہیں ہے، دم خواہ مرد کرے یا عورت، دونوں کے لئے جائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عام ارشاد ہے: ’’ تم میں سے جو بھی اپنے بھائی کو نفع پہنچانے کی طاقت رکھتا ہو تو وہ ایسا ضرور کرے۔ ‘‘[1]
اس حدیث کے علاوہ کچھ روایات میں عورت کو اجازت دی گئی ہے کہ وہ دم کر سکتی ہے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے:
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ نظر بد لگ جانے پر دم کیا جائے۔‘‘[2]
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے گھر میں ایک لڑکی کو دیکھا جس کے چہرے پر سیاہ داغ تھے تو آپ نے فرمایا: اسے دم کرو کیونکہ اسے نظر بد لگی ہے۔[3]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مرض وفات میں خود پر معوذات پڑھ کر دم کرتے تھے لیکن جب آپ کے لئے یہ کام دشوار ہو گیا تو میں یہ معوذات پڑھ کر آپ پر دم کرتی تھی اور حصول برکت کے لئے آپ کا ہاتھ آپ کے جسم پر پھیرتی تھی، راوی نے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح دم کرتے تھے؟ آپ نے جواب دیا کہ اپنے ہاتھ پر دم کر کے ہاتھ کو چہرے پر پھیرا کرتے تھے۔[4]
ایک روایت میں مزید وضاحت ہے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب محو استراحت ہونے کے لئے بستر پر آتے تو قل ھو اللہ احد، قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس پڑھ کر دونوں ہاتھوں پر پھونک مارتے پھر انہیں چہرے اور جسم پر جہاں تک ہاتھ پہنچ سکتا تھا اسے پھیر لیتے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تو آپ نے مجھے حکم دیا کہ میں آپ کو اس طریقہ کے مطابق دم کروں۔ [5]
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ عورت دم کر سکتی ہے لیکن اپنے دم اور نفع رسانی کے کام کو صرف محارم تک محدود رکھے، اس فیض کو عام نہ کرے۔ ( واللہ اعلم )
[1] صحیح مسلم ، السلام: ۲۱۹۹۔
[2] صحیح بخاری ، الطب : ۵۷۳۸۔
[3] صحیح بخاری ، الطب : ۵۷۳۹۔
[4] صحیح بخاری، الطب : ۵۷۳۵۔
[5] صحیح بخاری ، الطب : ۵۷۴۸۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب