سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(481) غیر ملک میں ملازمت کرنا

  • 20744
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-27
  • مشاہدات : 828

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے خاوند غیر ملک میں ملازت کرتے ہیں ، دو سال کے بعد انہیں چھٹی ملتی ہے تو گھر آتے ہیں، کیا شرعاً اس طرح کی ملازمت کی جا سکتی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اللہ تعالیٰ نے نکاح کے مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’ اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہاری ہی جنس سے تمہاری بیویاں پیدا کیں تا کہ تم ان سے سکون پاؤ، اس نے تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی قائم کر دی یقیناً غور کرنے والوں کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ ‘‘[1]

اس آیت کے مطابق دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کے لئے باعث اطمینان و سکون ہیں۔ مرد ، بیوی سے بے پناہ پیار کرتا ہے اور بیوی، اپنے خاوند کے ساتھ جذبہ فدائیت رکھتی ہے اس سلسلہ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’ ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو۔‘‘[2]

اس سلسلہ میں متعدد احادیث بھی وارد ہیں، لیکن حصول دنیا نے ہمارے ذہنی سکون کو برباد کر دیا ہے۔ بلاشبہ دنیاوی زندگی میں خواہشات بہت زیادہ ہیں، اور انسان کو گمراہ کرنے کے لئے شیطان مختلف قسم کے طریقے استعمال کرتا ہے۔ ہمارے نزدیک اپنے بیوی بچوں کو تنہا چھوڑ کر بیرون ملک ملازمت بھی اسی قسم کا ایک جھانسہ ہے ، اس لئے خاوند کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس سلسلہ میں احتیاط سے کام لے ، اللہ تعالیٰ نے اس پر بیوی اور بچوں کے متعلق بہت بھاری ذمہ داری عائد کی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’ تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور اس کے ماتحت رہنے والوں کے متعلق اس سے سوال ہو گا، امام نگران ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا۔ مرد اپنے گھر کا نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے متعلق پوچھا جائے گا۔‘‘ [3]

اس حدیث کا تقاضا ہے کہ خاوند ، اپنے بیوی بچوں میں رہتے ہوئے ان کی نگرانی کرے اور ان کی تعلیم و تربیت کا خیال رکھے نیز یہ بھییاد رہے کہ عورت بھی ایک گوشت اور خون سے پیدا شدہ انسان ے، وہ کوئی لکڑی یا پتھر سے تراشا ہوا بت نہیں ہے۔ اس پر فتن دور میں وہ بھی مختلف قسم کے لوگوں کو دیکھ کر یا ان کی باتیں سن کر متاثر ہو سکتی ہے، اس لئے خاوند کے لئے اس پہلو کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے اور غلط قسم کی اثر انداز ہونے والی سو سائٹی سے اپنے بیوی بچوں کو بچانا اس کی ذمہ داری میں شامل ہے ۔ ہمارے رجحان کے مطابق ایک مسلمان خاوند کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ صرف حصول دنیا کے لئے ہی زندگی بسر نہ کرے اور ایک گونگی اور بے حس مشین کی طر ح صرف دنیا کمانے میں نہ لگا رہے اگرچہ مال کی خواہش بہت زیادہ ہوتی ہے اور بیرون ملک جانے کی کڑوی اور زہریلی گولی کو صرف اسی مقصد کے پیش نظر نگلا جاتا ہے لیکن جو چیز اللہ کے پاس ہے وہ زیادہ بہتر اور باقی رہنے والی ہے، لہٰذا اسے یہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ کم وقت والا کام کرے، خواہ اس میں اجرت کم ہی ہو اور اپنے ملک میں رہتے ہوئے محنت و مزدوری کر لے تاکہ وہ اپنے بیوی بچوں کے لئے بھی وقت نکال سکے اور ان کی تربیت کی طرف توجہ دے سکے۔ دو ، دو سال تک عورت کو گھر میں اکیلا رکھنا کسی طرح سے بھی مناسب نہیں ہے۔ اسے چاہیے کہ اگر بیرون ملک جانے کے بغیر چارہ نہ ہو تو انہیں اپنے ساتھ رکھنے کا کوئی بندو بست کرے، اگر اکیلا بندو بست نہیں کر سکتا تو چند ساتھی مل کر کوئی مکان کرایہ پر لے لیں تاکہ اہل و عیال کے لئے ایک اسلامی فضا اور صاف ستھرا ماحول تیار کیا جا سکے اور جو لوگ کفار کے ممالک میں حصول ملازمت کے لئے جاتے ہیں انہیں تو خاص طور پر اس پہلو کو مد نظر رکھنا چاہیے، اللہ تعالیٰ ہمیں اسلامی احکام پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔ آمین !


[1] الروم : ۲۱۔

[2] النساء : ۱۹۔

[3] صحیح بخاری ، الجمعة : ۸۹۳۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:426

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ