سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(478) غیبت کیا ہے؟

  • 20741
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1899

سوال

(478) غیبت کیا ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر کوئی شخص کسی کاروبار ، رشتہ یا کسی بھی ضرورت کے پیش نظر دوسرے کے متعلق سوال کرے تو کیا اس کے عیوب سے آگاہ کرنا غیبت ہے، کیا ایسے حالات میں بھائی کے عیوب اس کی عدم موجودگی میں بتائے جا سکتے ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن کریم نے غیبت کی بہت مذمت کی ہے اور سختی کے ساتھ اس سے منع فرمایا ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے ، کیا تم میں سے کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟ بلکہ تمہیں خود اس سے گھن آتی ہے۔‘‘ [1]

غیبت کی تعریف خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقو ل ہے ، آپ سے پوچھا گیا کہ غیبت کیا ہوتی ہے؟ آپ نے فرمایا کہ تو اپنے بھائی کا ذکر اس طرح کرے جو اسے ناگوار ہو، عرض کیا گیا اگر میرے بھائی میں وہ بات پائی جاتی ہو جو میں کہہ رہا ہوں تو کیا یہ بھی غیبت ہے؟ آپ نے فرمایا: غیبت تو یہی ہے کہ اس کے عیب کو اس کی عدم موجودگی میں بیان کیا جائے اور اگر اس میں وہ عیب نہیں تو آپ نے اس پر بہتان لگایا ہے۔ [2]

بہر حال غیبت بہت بڑا اخلاقی جرم ہے اور یہ کسی زندہ انسان کی اس کی پیٹھ پیچھے کی جائے یا کسی فوت شدہ انسان کی، جرم کی نوعیت کے لحاظ سے اس میں کوئی فرق نہیں۔ البتہ شریعت نے کسی اہم ضرورت کے پیش نظر چند صورتوں کو اس حرمت سے مستثنیٰ قرار دیا ہےا وروہ مندرجہ ذیل ہیں:

٭ حاکم کے سامنے یا فتویٰ لینے کے لئے مفتی کو کسی کا عیب بتایا جا سکتاہے جیسا کہ حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی بیوی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تھا کہ میرا خاوند بہت کنجوس ہے اور وہ گھر کے اخراجات کے لیے معقول خرچہ نہیں دیتا۔کیا میں اس کے علم کے بغیر اس کی رقم لے سکتی ہوں تو آپ نے فرمایا کہ ہاں تم اتنی رقم لے سکتی ہو جس قدر معروف طریقہ کے مطابق گھر کے اخراجات پورے ہو جائیں۔[3]

٭ کسی کے شر سے بچنے کےلئے اپنے مومن بھائی کو اس کے عیوب سے مطلع کر دینا تاکہ وہ اس کے شر سے محفوظ رہ سکے۔ مثلاً کوئی رشتہ کرنا چاہتا ہو ، یا کسی سے کاروباری شراکت کا پروگرام ہے یا کسی کے ہمسایہ میں مکان خریدنا چاہتا ہے تو مشورہ دیتے وقت نہایت احتیاط اور دیانتداری سے متعلقہ شخص کے عیوب بیان کر دے تا کہ وہ کسی دھوکہ میں نہ رہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کے متعلق فرمایا: ’’ یہ اپنے خاندان کا بدترین آدمی ہے۔‘‘[4]

٭ انسان کو ایسی غرض لاحق ہو کہ غیبت کے بغیر وہ پوری نہ ہو سکتی ہو، اگر غیبت نہ کی جائے تو اس غیبت سے زیادہ برائی لازم آتی ہو۔ جیسا کہ محدثین کا قانون جرح و تعدیل ہے، جس پرتمام ذخیرہ احادیث کی جانچ پڑتال کا انحصار ہے۔ایسی صورت میں راویوں کے عیوب بیان کرنا جائز نہیں بلکہ واجب ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے فرمایا تھا کہ نکاح کرنے کے لئے انصار کی عورتوں کو دیکھ لیا کرو کیونکہ ان کی آنکھوں میں کچھ بھینگا پن ہوتا ہے۔ [5]

٭ ایسے لوگوں کے خلاف علی الاعلان آواز بلند کرنا اور ان کی برائیوں پر تنقید کرنا جو فسق و فجور پھیلا رہے ہوں یا بدعات و رسوم کی اشاعت کر رہے ہوں یا اللہ کی مخلوق کے بے دینی اور ظلم و جور کے فتنوں میں مبتلا کر رہے ہوں۔ اس کی بنیاد یہ آیت کریمہ ہے: ’’ اللہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ آدمی علانیہ کسی برائی پر زبان کھولے اِلا یہ کہ کسی پرظلم کیا گیا ہو۔‘‘[6]

اس کا مطلب یہ ہے کہ ظالم کے خلاف آواز بلند کرنا جائز ہے۔ چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’ اہل فساد اور فتنہ برپا کرنے والوں کی غیبت جائز ہے۔ ‘‘[7]

مذکورہ صورتوں کے علاوہ خواہ مخواہ کسی مسلمان کے بارے میں پروپیگنڈا کرنا انتہائی مذموم ، غیبت اور بہتان ہے۔ لہٰذا یہ حرام اور ناجائز ہے نیز ان کا تعلق کبیرہ گناہوں سے ہے ، اللہ تعالیٰ ہمیں ان اخلاقی برائیوں سے محفوظ رکھے ۔ آمین!


[1] الحجرات : ۱۲۔

[2] صحیح مسلم، البر والصلة: ۲۵۸۹۔

[3] صحیح البخاري، النفقات : ۳۵۶۳۔

[4] صحیح البخاري، الادب : ۶۰۵۴۔

[5] صحیح مسلم، النکاح : ۱۴۳۴۔

[6] النساء: ۱۴۸۔

[7] صحیح البخاري ، الادب باب ۴۸۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:420

محدث فتویٰ

تبصرے