سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(475) سوال کرنے کے آداب

  • 20738
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 4132

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض دفعہ ایسے سوالات بھی سامنے آتے ہیں جن کا معاشرتی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، وہ بظاہر فضول نظر آتے ہیں، کتاب و سنت کی روشنی میں ہمیں سوالات کے آداب سے آگاہ فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اللہ کی وحی سے مطلع کرنے کے لئے کئی ایک طریقے استعمال فرمائے ، ان میں کامیاب اور کارگر ذریعہ سوال و جواب کا ہے۔بعض اوقات خود وحی بھی سوال و جواب کی صورت اختیار کر لیتی تھی جیسا کہ حدیث جبرائیل علیہ السلام سے معلوم ہوتا ہے۔ اس میں فرشتہ وحی خود کسی دینی معاملہ کے متعلق سوال کرتاہے پھر خود ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوابات کی تصدیق کرتا ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو یہ صورتحال دیکھ کر تعجب ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ یہ حضرت جبریل علیہ السلام تھے جو تمہیں دین کی باتیں سکھانے کے لئے یہ انداز اختیار کئے ہوئے تھے۔ ‘‘[1]

اللہ تعالیٰ نے خود اس امت کو یہ انداز اختیار کرنے کی تعلیم دی ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ اگر تمہیں کسی بات کا علم نہ ہو تو اہل ذِکر سے دریافت کر لیا کرو۔ ‘‘[2]

اس قرآنی ہدایت کے بعد صحابہ کرام کو اگر کسی دینی مسئلہ میں مشکل پیش آتی تو سرخیل اہل ذکر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرے ۔ قرآن کریم نے ’’یسئلونک‘‘ کے انداز سے ایسے کئی ایک مسائل کی نشاندہی کی ہے جو صحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کئے اور اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ان کے جوابات دیئے۔

عہد رسالت میں بعض اوقات ایسے سوالات بھی سامنے آئے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج کے خلاف تھے اور ان میں کوئی دینی یا دنیوی فائدہ نہیں تھا، اللہ تعالیٰ نے محدود پیمانے پر اس سلسلہ میں کچھ پابندی عائد کر دی۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ اے ایمان والو! ایسی باتوں کے متعلق سوال نہ کیا کرو کہ اگر وہ تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں۔ ‘‘[3]

اس کے بعد لوگوں پر پابندی عائد کر دی گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے سوالات نہ کئے جائیں جن میں کوئی دینی یا دنیوی فائدہ نہ ہو کیونکہ خواہ مخواہ سوال پوچھنے سے انسان کو نقصان ہی ہوتا ہے یا اس پر کوئی پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔ ویسے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بے فائدہ گفتگو کرنے ، زیادہ سوالات پوچھنے ، مال و دولت کو ضائع کرنے، ماؤں کو ستانے ، لڑکیوں کو زندہ در گور کرنے اور دوسروں کا حق دبانے سے منع فرمایا ہے۔ [4]

ہر سوال کا جواب دینا ضروری نہیں ہوتا جیسا کہ کچھ لوگ قرآنی آیات سے استدلال کر کے باطل چیزوں کے امکان پر بحث و سوال کا سلسلہ شروع کر دیتے ہیں مثلاً اللہ تعالیٰ اگر سب کچھ جانتا ہے تو کیا جادو بھی جانتا ہے، اور اگر اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے تو کیا وہ جھوٹ بولنے پر بھی قدرت رکھتا ہے۔ اسی طرح اگر اللہ تعالیٰ ہر شخص کی شاہ رگ سے بھی قریب تر ہے تو وہ عرش پر کیسے مستوی ہو سکتاہے؟ العیاذباللہ

اب ہم فضول اور بے فائدہ سوالات کی کچھ اقسام بیان کرتے ہیں تاکہ آپ حضرات بھی اس قسم کے سوالات پوچھنے سے اجتناب کریں۔

٭ ایسے سوالات جن میں کوئی دینی یا دنیوی فائدہ نہ ہو جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ اور حضرت سالم رضی اللہ عنہ نے اپنے باپ کی تعیین کے لئے سوال کیا تھا۔ [5]

٭  ضرورت پوری ہونے کے بعد بلاوجہ مزید سوالات کا سلسلہ جاری رکھنا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کی فرضیت کو بیان فرمایا تو ایک آدمی نے سوال کر دیا کہ ہر سال حج کرنا فرض ہے۔[6]

٭  ایسے معاملات کے متعلق سوالات کرنا ، جن کے متعلق شریعت کا کوئی حکم نازل نہیں ہوا بلکہ شارع علیہ السلام کا سکوت ہی اس کے جواز کے لئے کافی ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جس معاملہ کو میں نے چھوڑ دیا ہے تم بھی اسے چھوڑ دو، تم سے پہلے لوگ اس لئے ہلاک ہوئے کہ انہوں نےبلاوجہ اپنے انبیاء  علیہم السلام سے اختلاف کر کے سوالات کی بھر مار کر دی تھی۔[7]

٭  مشکل ترین اور حساس معاملات کے متعلق سوالات کرنا تا کہ جواب دینے والا کسی الجھن اور پیچیدگی کا شکار ہو جائے۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معمہ جات اور پہیلیوں ( اغلوطات) کی صورت میں سوالات کرنے سے منع فرمایا ہے۔ [8]

٭  تعبدی احکام کی غرض و غایت اور اس کی علت سے متعلق سوال کرنا ۔ جیساکہ حضرت معاذہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا تھا کہ حائضہ عورت روزے کی قضاء تو دیتی ہے لیکن اس کے لئے نماز کی قضا دینا کیوں ضروری نہیں؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ سوال ناپسند کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’ تو حروریہ معلوم ہوتی ہے۔‘‘[9]

٭  تکلف کرتے ہوئے کسی چیز کی گہرائی اور اس کی حقیقت کے متعلق سوال کرنا ۔ جیسا کہ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے ایک حوض کے متعلق اس کے مالک سے دریافت کیا تھا کہ یہاں درندوں کی آمد و رفت تو نہیں ہوتی؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سوال کو ناپسند کرتے ہوئے فرمایا: تجھے اس کے متعلق ہمیں بتانے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔ [10]

٭  ایسے سوالات جن میں عقل و قیاس کے ذریعے کتاب و سنت کی صریح نصوص کا رد مقصود ہو۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ شکم مادر میں قتل ہونے والےبچے کے متعلق فیصلہ فرمایا تھا کہ اس کے بدلے ایک لونڈی یا غلام تاوان دیا جائے، تو جس کے خلاف یہ فیصلہ ہوا کہنے لگا کہ میں اس بچے کا تاوان کیوں دوں جس نے کھایا ہے نہ پیا ہے اور نہ وہ بولا اور چلا ہے، ایسے بچے کا خون تو رائیگاں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے انداز گفتگو کو ناپسند کرتے ہوئے فرمایا: ’’ یہ تو کاہنوں کا بھائی معلوم ہوتا ہے۔‘‘ [11]

٭  متشابہات کے متعلق سوالات کرنا بھی ممنوعہ قبیل سے ہے۔ جیسا کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے کسی نے یہ آیت پڑھی: ’’رحمٰن نے اپنے عرش پر قرار پکڑا ۔ ‘‘ (طٰہٰ:۵) پھر امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا کہ استواء کیا ہوتا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ’’استواء تو معروف ہے ، اس کی کیفیت نامعلوم ہے اور اس کے متعلق سوال کرنا بدعت ہے۔‘‘[12]

٭  اسلاف کے باہمی مشاجرات کے متعلق سوالات کرنا۔ جیسا کہ اہل صفین کے بارے میں حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ نے ان کے خون سے میرے ہاتھوں کو محفوظ رکھا ، میں نہیں چاہتا کہ میں اپنی زبان کو اس میں ملوث کروں۔ ‘‘[13]

٭  کٹ بحثی ، کٹ حجتی اور دوسرے فریق کو لا جواب اور خاموش کرنے کے لئے سوالات کرنا۔ جیسا کہ مشرکین اور یہود مدینہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبات اور سوالات کرتے تھے۔ ان کا ہر گز مطلب یہ نہ تھا کہ اگر انہیں معقول جواب مل جائے تو حق کو تسلیم کر لیں گے بلکہ ان کا مقصد یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قسم کے سوالات میں الجھا کر کم از کم دوسروں کو حق سے دور رکھا جائے، قرآن کریم نے ایسے لوگوں کی مذمت کی ہے۔ [14]

٭   بے ضرورت سوالات گھڑ گھڑ کر ان کی تحقیقات میں دماغ سوزی کرنا۔ جیسا کہ زلیخا کی شادی حضرت یوسف علیہ السلام سے ہوئی تھی یا نہیں؟ اصحاب کہف کے کتے کا رنگ کیسا تھا؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا نام کیا تھا؟ اس قسم کے سوالات ممنوع ہیں کیونکہ اس میں اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کرنا ہے۔

٭  فرضی مسائل کھڑے کر کے ان کے متعلق غور و خوض کرنا بھی اسی قبیل سے ہے۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے ایک ایسی چیز کے متعلق سوال کیا جس کا ابھی وقوع نہیں ہوا تھا۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

’’ایسی چیز کے متعلق سوال نہ کرو جو ابھی واقع نہیں ہوئی ، ہم نے اپنے والد گرامی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ ایسے شخص پر لعنت کرتے تھے جو ایسی اشیاء کے متعلق سوالات کرتا جو واقع نہ ہوئی ہوں۔ [15]

ہم نے کتاب و سنت کی روشنی میں سوالات کی چند اقسام سے آپ کو آگاہ کیا ہے جو مستحسن نہیں ہیں۔ ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ آپ ایسے سوالات کریں جن کا تعلق آپ کی عملی زندگی سے ہے یا آپ عمل و کردار کے لحاظ سے کسی الجھن کا شکار ہیں۔ ہم اللہ کے فضل و کرم سے آپ کی راہنمائی کرنے میں بخل سے کام نہیں لیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ (آمین !)


[1] صحیح البخاري ، الایمان : ۵۰

[2] النحل: ۴۳۔

[3] المائدة: ۱۰۱۔

[4] صحیح البخاري، الاعتصام : ۷۲۸۹۔

[5] صحیح البخاري ، العلم : ۸۰۔

[6] صحیح مسلم، الحج: ۴۱۲۔

[7] صحیح مسلم، الحج : ۴۱۲۔

[8] سنن أبي داود، العلم : ۳۶۵۶۔

[9] صحیح مسلم، الحیض : ۶۹۔

[10] موطا إمام مالک ، الطھارة: ۱۴۔

[11] صحیح مسلم، القیامة : ۱۶۸۲۔

[12] مختصر العلو للذہبي، ص ۱۴۱۔

[13] موافقات للشاطبي ص ۳۲۰ ج۴۔

[14] الزخرف: ۵۸۔

[15] مسند الدارمي : ۱۲۶۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:416

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ