سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(472) مرد وزن کا اختلاط

  • 20735
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 959

سوال

(472) مرد وزن کا اختلاط

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمار ہاں بعض سکولوں میں لڑکوں اور لڑکیوں کو اکٹھے تعلیم دی جاتی ہے اور مردانہ زنانہ سٹاف بھی اکٹھاہوتا ہے، شریعت میں مردوں اور عورتوں کو اکٹھا رہنے کی کہاں تک اجازت ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اسلام میں مرد اور عورت کا دائرہ عمل الگ الگ ہے ، لڑکیوں کو تعلیم دینا ایک مستحسن اقدام ہے لیکن انہیں اکٹھا رکھنا کئی ایک فتنوں کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے ۔ اسی زنانہ سٹاف کی بے پردگی ہی مردانہ سٹاف کے ساتھ ملنے جلنے کا سبب بنتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عورتیں، مردوں سے شرم و حیا محسوس نہیں کرتیں اور اس طرح کا میل جول بہت بڑے فتنے اور تباہی کا سبب بنتا ہے۔ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد سے باہر تشریف لائے تو دیکھا کہ مرد اور عورتیں ایک راستے پر چل رہے ہیں، آپ نے یہ منظر دیکھ کر عورتوں سے فرمایا: ’’ ایک طرف ہٹ جاؤ ، راستے کے درمیان چلنا تمہارے لئے بہتر نہیں، ایک طرف ہو کر چلا کرو۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے بعد عورتوں نے اس پر بایں طور پر عمل کیا کہ انہوں نے راستہ میں ایک طرف ہو کر چلنے کا معمول بنا لیا ، وہ اس قدر راستے سے ہٹ کر چلتی تھیں کہ بعض اوقات ان کی چادریں دیواروں سے چپک جاتی تھیں۔ [1]

اس روایت کو بعض اہل علم نے ضعیف قرار دیا ہے کیونکہ اس میں شداد بن ابی عمرو نامی راوی مجہول ہے لیکن کچھ حضرات نے اسے حسن قرار دیا ہے۔ [2]

قرآن کریم سے مذکورہ حدیث کے مفہوم کی تائید ہوتی ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام مدین کے ایک کنویں پر پہنچے تو انہوں نے وہاں لوگوں کی ایک بھیڑ کو پایا جو اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے تھے، وہاں دو لڑکیاں بھی دیکھیں جنہوں نے اپنی بکریوں کو روک رکھا تھا۔[3]

ان لڑکیوں نے مردوں کے ساتھ اختلاط کو گوار ا نہیں کیا بہر حال مر دو زن کا یہ میل فتنے کا باعث ہو سکتا ہے، ایسا کرنا منع ہے ۔ حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں مردوں سے راستہ میں الگ رہیں اورگلی یا سڑک کے عین وسط میں چلنے کے بجائے اس کی ایک جانب ہو کر چلیں ، یہ کیفیت ان کے باحیا اور باوقار ہونے کی علامت ہے۔ اس میں عورتوں کے لئے امن بھی ہے کہ کوئی اوباش انہیں پریشان نہیں کرے گا اور نہ ہی ان سے کوئی غلط توقع وابستہ کر سکتا ہے۔( واللہ اعلم)


[1] سنن أبي داود ، الادب : ۲۵۷۲۔

[2] الاحادیث الصحیحة : ۷۲۱۔

[3] القصص: ۲۳۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:414

محدث فتویٰ

تبصرے