سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(468) خاوند کا بیوی سے الگ رہنا

  • 20731
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 1053

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ہاں کچھ لوگ ملازمت کے لئےبیرون ملک جاتے ہیں جبکہ وہ شادی شدہ ہوتے ہیں پھر سال، دو سال بعد واپس آتے ہیں، اس دوران یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ گھریلو حالات خراب ہو جاتےہیں۔ قرآن و سنت کے مطابق خاوند کتنا عرصہ اپنے گھرسے باہر رہ سکتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 شریعت نے اس سلسلہ میں کسی مدت کا تعین نہیں کیا کہ خاوند اتنی مدت سے زیادہ باہر نہیں رہ سکتا،کیونکہ یہ میاں بیوی کا باہمی معاملہ ہے ، البتہ قرآن و حدیث نے ہمیں اس امر سے آگاہ ضرور کیا ہے کہ دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کریں اور بلا وجہ ایک دوسرے کو تکلیف نہ دیں۔ بیوی کے متعلق تو خاص ہدایات ہیں کہ اس کے ساتھ حسن معاشرت کا مظاہرہ کیا جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ ان کے ساتھ خوش اسلوبی سے گزر بسر کرو۔‘‘[1]

عورتوں کے متعلق ایک دوسرے مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’ اور انہیں تکلیف دینے کی غرض سے مت روکے رکھو تاکہ تم زیادتی کرتےرہو ۔ ‘‘[2]

احادیث میں بھی عورتوں سے حسن معاشرت کی بہت تاکید آئی ہے اور یہ کوئی حسن معاشرت نہیں کہ روزگار کے لئے انسان بیرون ملک چلا جائے اور بیوی کے حقوق کو نظر انداز کر کے سال دو سال تک باہر ہی رہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس سلسلہ میں بہت حساس طبیعت رکھتے تھے ، انہوں نے یہ قانون مقرر کیا تھا کہ کوئی فوجی چار ماہ سے زیادہ اپنے گھر سے باہر نہ رہے۔ چنانچہ آپ عام مسلمانوں کے حالات کا جائزہ لینے کے لئے رات کو گشت کرتے تھے۔ ایک رات کا واقعہ ہے کہ کسی مکان سے گزرتے وقت ایک عورت کی پُر سوز آواز سنی۔ اس کےلئے اپنے شوہر نامدار کی جدائی ناقابل برداشت ہو رہی تھی جو جہاد و قتال میں مصروف تھا اور کئی مہینوں سے گھر نہیں آ سکا تھا، اس کے جذبات دلسوز اشعار کی صورت میں ابل پڑے تھے۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی سے دریافت کرنے پر ہر فوجی نوجوان کےلئے چار ماہ کے بعد اپنے گھر جانا لازم قرار دیا۔ [3]

بہر حال ہمارے رجحان کے مطابق کسی بھی شوہر کو اپنے گھر سے اتنی مدت کے لئے غیر حاضر نہیں رہنا چاہیے جس میں گھریلو حالات خراب ہو جائیں۔ ( واللہ اعلم)


[1] النساء : ۱۹۔

[2] البقرة : ۲۳۱۔

[3] سنن البیھقي ص ۲۹ ج۹۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:411

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ