السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر کوئی خاتون قرآن کریم کو بہترین آواز میں پڑھتی ہے یا وہ اچھے انداز میں تقریر کرتی ہے تو اس کی تلاوت سننا یا اس کی تقریر سننا شرعی طور پر کیسا ہے، کیا عورت کی آواز قابل ستر ہے کہ دوسرے آدمی اسے نہ سنیں، قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیا جائے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن و حدیث میں ہمیں کوئی ایسی دلیل نہیں مل سکی جس سے معلوم ہو کہ عورت کی آواز قابل ستر ہے اور اس آواز کو اجنبی مرد نہیں سن سکتے۔ بلکہ ازواج مطہرات کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو، اگر تم پرہیز گاری اختیار کرو تو نرم لہجے میں بات نہ کرو مبادا جس کے دل میں روگ ہو وہ کوئی برا خیال وابستہ کر لے اور قاعدہ کے مطابق گفتگو کرو۔‘‘ [1]
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات کو آواز کے متعلق ہدایات دی ہیں کہ وہ مردوں سے گفتگو کرتے وقت قصداً ایسا لب و لہجہ اختیار نہ کریں جس کی وجہ سے کوئی بد باطن اپنے دل میں کوئی برا خیال پیدا کر لے۔ چونکہ عورت کی آواز میں فطری طور پر دلکشی ، نرمی اور نزاکت ہے جو مرد کو اپنی طرف کھینچتی ہے، اس بنا ء پر بات کرنے سے منع نہیں کیا گیا بلکہ نرم اور لچکدار لب و لہجہ سے منع کیا ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کی آواز ستر میں د اخل نہیں۔ اسی طرح دوسری آیت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ( ترجمہ) ’’ جب تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے کوئی چیز طلب کرو تو پردے کے پیچھے سے طلب کرو۔ ‘‘[2]
اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ عورت کی آواز قابل ستر نہیں کیونکہ کوئی چیز طلب کرنے میں بات کرنا ضروری ہے، بعض دفعہ عورت کو بھی بات کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بہر حال قرآن و حدیث میں کسی بھی دلیل سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ عورت کی آواز قابل ستر ہے۔
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ جیسے فقیہ اور عالم صحابی ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے علم و فضل کے متعلق اپنا اور اپنے جیسے دوسرے ساتھیوں کا تجربہ بایں الفاظ بیان کرتے ہیں: ’’ ہم اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کبھی کسی حدیث کے معاملہ میں کوئی مشکل پیش آئی اور ہم نے اسے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا تو ان کے پاس اس کا علم پایا۔‘‘ [3]
اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ، صحابہ کرام میں ایک مرجع کی حیثیت رکھتی تھیں اور مشکل مسائل کے لئے صحابہ کرام آپ سے رابطہ کرتے تو ان کا حل انہیں بتاتی تھیں، اگر آواز پردہ ہوتی تو مسائل وغیرہ کے لئے رجوع نہ کیا جا سکتا۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ ایک حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتےہیں: ’’ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اجنبی عورت کی گفتگو سننا جائز ہے اور عورت کی آواز قابل ستر نہیں۔[4]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک حدیث کی تشریح میں امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی لکھاہے کہ ضرورت کے وقت اجنبی عورت کی گفتگو سننا جائز ہے اور عورت کی آواز پردہ میں شامل نہیں۔ [5]
ہمارے رجحان کے مطابق اگر کوئی عورت خوش الحانی سے قرآن کی تلاوت کرتی ہے تو اس کی تلاوت مرد سن سکتے ہیں اور اسی طرح اس کی تقریر سے بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، کتاب و سنت میں کوئی ایسی دلیل نہیں جس سے معلوم ہوتا ہو کہ عورت کی آواز پردے کا حصہ ہے۔ صرف اتنی پابندی ہے کہ عام لوگوں سے گفتگو کرتے وقت لب و لہجہ ذرا سخت ہونا چاہیے۔ ( واللہ اعلم)
[1] الاحزاب: ۳۲۔
[2] الاحزاب: ۵۳۔
[3] ترمذی ، المناقب : ۳۸۸۳ْ۔
[4] فتح الباري ص ۲۵۲ ج۱۳۔
[5] شرح نووي ص ۱۱ ج۱۳۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب