السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر عورت کے چہرے پر بال اُگ آئیں تو کیا انہیں صاف کیا جا سکتا ہے، قرآن و حدیث میں ایسے بالوں کے متعلق کیا وضاحت ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
چہرے پر اُگنے والے بال دو قسم کے ہیں اور دونوں احکام الگ الگ ہیں جن کی تفصیل یہ ہے:
٭ چہرے پر اُگنے والے عادی بال مثلاً ابرو کے بال، اس قسم کے بالوں کو اتارنا یا باریک کرنا حرام ہےجیسا کہ حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ [1]
٭ چہرے پر اُگنے والے غیر عادی بال مثلاً داڑھی یا مونچھوں کے بال۔ ان کے متعلق حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ کا قول نقل کیا ہے:’’ چہرے کے بال نوچنے حرام ہیں لیکن عورت کی داڑھی اور مونچھیں وغیرہ، اس سے مستثنیٰ ہیں۔ عورت کا انہیں زائل کرنا حرام نہیں بلکہ مستحب ہے۔ ‘‘[2]
شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
’’ ایسے بال جو جسم کے ان حصوں میں اُگ آئیں جہاں عادتاً بال نہیں اُگتے مثلاً عورت کی مونچھیں اُگ آئیں یا رخساروں پر بال آجائیں تو ایسے بالوں کو اتارنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ وہ خلاف عادت ہونے کے علاوہ چہرے کے لئے بدنمائی کا باعث ہیں۔ [3]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک عورت آئی اور اس نے سوال کیاکہ عورت اپنے خاوند کی خاطر پیشانی کے بال صاف کر سکتی ہے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ’’ اس اذیت کو تم اپنی ہمت کے مطابق دور کر سکتی ہو۔‘‘ [4]
بہر حال عورت اپنے چہرے پر اُگنے والے غیر عادی بالوں کو زائل کر سکتی ہے، اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں، البتہ بھنوؤں کا باریک کرنا حرام اور ناجائز ہے۔ ( واللہ اعلم)
[1] صحیح البخاري ، الادب : ۵۹۳۹۔
[2] فتح الباري ص ۴۶۳ ج۱۰۔
[3] فتاویٰ برائے خواتین ص ۴۷۳۔
[4] فتح الباري ص ۴۶۳ج۱۰۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب