سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(452) نیوتا کی شرعی حیثیت

  • 20715
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1310

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ہاں شادی کے موقع پر لین دین اور تحفے تحائف کا تبادلہ ہوتا ہے لیکن دل میں یہ ہوتا ہے کہ آئندہ ایسے موقع پر مجھے بھی دیا جائے، ایسے حالات میں اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 شادی کے موقع پر طبعی خوشی ہوتی ہے اور تحفے تحائف کا تبادلہ طبعی خوشی کا حصہ ہے ، شریعت میں اس کی ممانعت نہیں۔ ہمارے رجحان کے مطابق ایسے موقع پر تحائف وغیرہ کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے ، ایک یہ ہے کہ تعاون کی نیت ہوتی ہے اور ایسا کرنے سے غریب آدمی کو کچھ سہارا مل جاتا ہے، اس کے جواز میں کوئی شک نہیں بشرطیکہ دینے والا صرف تعاون یا تحفے کی نیت سے دے اور واپسی کی نیت نہ ہو ۔ ایسے موقع پر تحائف دینے کی دوسری صورت یہ ہے کہ تعاون سے بڑھ کر ایک سودی قرض کی صورت اختیار کر جائے جیسا کہ بالعموم ہمارے ہاں ہوتا ہے، دینے والا اس نیت سے دیتا ہے کہ اگر میں آج سو روپیہ دوں تو کل میرے بیٹے یا بیٹی کی شادی پر اس سے دوگنا یا ڈیڑھ گنا مل جائے گا اور اگر کوئی ایسا نہیں کرتا تو اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، یوں تعاون کے بجائے ایک سودی ذہنیت بن گئی ہے، اس کا نام تحفہ یا سلامی رکھا جاتا ہے، لہٰذا اس رواج کو بدلنے کی ضرورت ہے۔

ہمارے نزدیک اس کی یہی صورت ہو سکتی ہے کہ شادی کے موقع پر اس قسم کے تحائف کے تبادلہ کو یکسر بند کر دیا جائے جو نیوتا کا نام بدل کر وصول کئے جاتے ہیں، ہاں اگر شادی سے پہلے غریب کے ساتھ تعاون کر دیا جائے یا اسے قرض حسنہ آسان شرائط کے ساتھ دے دیا جائے تو اس کے جواز میں کوئی شبہ نہیں، لیکن ہمارے ہاں موجودہ صورت حال کو تحائف کی آڑ میں جائز قرار دینا انتہائی محل نظر ہے۔ ( واللہ اعلم)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:401

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ