سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(451) خاوند کی حیثیت سے زیادہ کا مطالبہ

  • 20714
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 728

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں ایک غریب آدمی ہوں اور محنت مزدوری سے اپنے اہل خانہ کا پیٹ پالتا ہوں لیکن بعض اوقات میری بیوی مالی حیثیت سے زیادہ کا مطالبہ کر دیتی ہے، ایسے حالات میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 شادی کے بعد خاوند کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی بیوی کے اخراجات برداشت کرے اور کھانے پینے، رہنے سہنے اور پہننے کی ضروریات کو پورا کرے ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ ہم پر بیوی کا کیا حق ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جب تم خود کھاؤ تو اسے بھی کھلاؤ اور جب تم خود لباس پہنو تو اسے بھی پہناؤ۔ ‘‘[1]

ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ خبردار ! تم پر ان بیویوں کا حق ہے کہ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کر و اور انہیں کھانا پینا اور رہائش وغیرہ اچھے طریقے سے دو۔ ‘‘[2]

لیکن اس سلسلہ میں خاوند کی مالی حیثیت کو ضرور مد نظر رکھا جائے گا، اس لئے بیوی کو یہ حق نہیں کہ مطالبات میں کثرت کے ذریعے اسے مشکلات میں ڈالے ، خاوند کے ذمے صرف اسی حساب سے خرچ کرنا واجب ہے، جس قدر اس کی طاقت اور ہمت ہے۔ جیسا کہ ارشادِباری تعالیٰ ہے: ’’ کشادگی والے کواپنی کشادگی کے مطابق خرچ کرنا چاہیے اور جس پر اس کا رزق تنگ کیا گیا ہو اسے چاہیے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اسے دے رکھا ہے ، اس میں سے خرچ کرے ، اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے۔ ‘‘[3]

بیوی کو یہ بات اپنے ذہن میں رکھنی چاہیے کہ خاوند کو بے جا قسم کے مطالبات کے ذریعے تنگ کرنا تباہی کا راستہ ہے۔ اس سلسلہ میں ہم ایک حدیث بطور نصیحت ذکر کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ بنی اسرائیل کی ابتدائی ہلاکت یہ تھی کہ تنگ دست کی بیوی اسے لباس یا زیورات لانے کی اتنی تکلیف دیتی تھی جتنی مالدار خاوند کی بیوی اپنے خاوند کو دیتی تھی۔ ‘‘ [4]

اس حوالے سے ہم خاوند کو بھی نصیحت کرتے ہیں کہ وہ اپنی بیوی کو زہد و قناعت کی تلقین کرتا رہے اور حسب توفیق خرچ کرنے میں بخل سے کام نہ لے اور اس سے یہ وعدہ کرے کہ اللہ تعالیٰ جب کشادگی فرمائے گا تو مطالبات کو بھی پورا کر دیا جائےگا۔ ‘‘ 

( واللہ اعلم)


[1] سنن أبي داؤد ، النکاح: ۲۱۴۲۔

[2] مسند أحمد ص ۴۲۶ ج۳۔

[3] اطلاق : ۷۔

[4] سلسلة الأحادیث الصحیحة : ۵۹۱۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:400

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ