السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کچھ طلباء امتحان میں نقل لگاتے ہیں یا دیگر ذرائع استعمال کر لیتے ہیں، شریعت اسلامیہ میں اس کے متعلق کیا وعید ہے، کیا اس نتیجہ سے حاصل کردہ ڈگری کی بنیاد پر ملازمت کرنا صحیح ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
امتحان میں نقل لگا کر کامیابی حاصل کرنا یا دیگر ناجائز ذرائع کر کے ڈگری حاصل کرنا جائز نہیں کیونکہ امتحان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ متعلقہ مضمون میں طالب علم کی اہلیت اور استعداد کو معلوم کیا جا سکے، جبکہ ناجائز ذرائع کے استعمال سے اس کی اہلیت پر پردہ پڑا رہتا ہے بلکہ وہ دھوکہ دہی کا مرتکب ہوتا ہے جس کی شرعاً ممانعت ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’جو شخص ہم کو دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں۔ ‘‘ [1]
ایسا کرنے سے دوسرے محنتی طلباء کی حق تلفی ہوتی ہے اور دھوکہ دہی کے مرتکب کام چور کو ایک محنتی شخص پر ترجیح دینا لازم آتا ہے جس کی شرعی طور پر اجازت نہیں ، ایسا طالب علم دھوکہ دہی سے ایسی ڈگری لینے میں کامیاب ہو جاتا ہے جس کی وہ اہلیت نہیں رکھتا اور اس منصب پر فائز ہو جائے گا جس کا وہ اہل نہیں۔ ہمارے رجحان کے مطابق وہ درج ذیل حدیث کا مصداق ہے: ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب امانت کا ضیاع ہونے لگے تو قیامت کا انتظار کرنا ، عرض کیا گیا کہ امانت کا ضیاع کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ جب معاملات ایسے لوگوں کے سپرد کئے جائیں جو ان کے قطعاً اہل نہ ہوں۔‘‘ [2]
بہر حال نقل لگا کر یا دیگر ناجائز ذرائع استعمال کر کے امتحان میں کامیابی حاصل کرنا ، اجتماعی نقصان اور دھوکہ دہی ہے جس سے ایک مسلمان کو اجتناب کرنا چاہیے۔ ناجائز ذرائع سے حاصل کردہ ڈگری کی بنیاد پر ملازمت حاصل کرنا بھی ناجائز ہے کیونکہ اس سے حقدار حضرات کی حق تلفی ہوتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ حصول دنیا کے لئے ناجائز طریقہ استعمال نہ کریں بلکہ جائز ذرائع سے دنیا کو حاصل کریں جس سے جسم اور روح کا رشتہ قائم رہ سکے، اس سے بڑھ کر ہمیں ایمان کی حفاظت کرنا چاہیے۔ ایمان کو ٹھکانے لگا کر اگر دنیا حاصل کی تو قیامت کے دن یہی دنیا ہمارے پاؤں کی بیڑی بن جائے گی ، پھر اس سے متعلق ہمیں اللہ کے حضور باز پرس بھی ہو گی، اللہ تعالیٰ ہمیں اچھی کمائی اور نیک اعمال کی توفیق دے۔ آمین!
[1] صحیح مسلم ، الایمان : ۱۶۴۔
[2] صحیح البخاري ، العلم : ۵۹۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب