سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(446) دینی کتب واپس کرنے سے انکار

  • 20709
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 662

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہم نے اپنی مسجد میں ایک دینی لائبریری بنا رکھی ہے، لیکن جو حضرات کتاب لے جاتے ہیں اسے واپس نہیں کرتے، ان کا کہنا ہے کہ علم کی نشر و اشاعت پڑھنے پڑھانے سے ہے، لائبریری میں رکھنے سے نہیں، بلکہ کچھ ’’ اہل علم ‘‘ اسے کتمان علم سے تعبیر کرتے ہیں ، اس کی وضاحت کریں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مساجد میں لائبریری کا قیام ایک مستحسن اقدام ہے کہ مسجد میں آنے والے حضرات دینی کتب سے استفادہ کریں اور فارغ اوقات میں ان کا مطالعہ کریں ، لیکن سوال میں ذکر کردہ صورت انتہائی تکلیف دہ ہے بلکہ اس سے زیادہ پریشان کن یہ معاملہ ہے کہ مساجد میں قائم کردہ لائبریری سے خطیب حضرات امہات الکتب عاریتاً لینے کے بعد انہیں واپس نہیں کرتے بلکہ واپس کرنے کو ’’ کتمان علم‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ دراصل اس نفسانفسی کے دور میں اخلاقی اقدار بدل گئی ہیں، روزمرہ کی اشیاء عاریتاً دینے کا رواج باہمی تعاون اور ہمدردی کا آئینہ دار تھا، جواب معدوم ہوتا جا رہاہے۔ اس وجہ سے لوگ عاریتاً لی ہوئی چیز واپس کرنے کا نام ہی نہیں لیتے بلکہ ان کے خیال کے مطابق مانگی ہوئی چیز کی واپسی کا مطالبہ کرنا شرافت سے بعید ہے، خاص کر دینی کتب کا معاملہ تو انتہائی سنگین صورت حال سے دوچار ہے۔ اہل علم اور خطباء حضرات کو اس کے متعلق کچھ غور کرنا چاہیے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے: ’’ جس ہاتھ نےجو کچھ لیا ہے ، اس پر اس کا ادا کرنا واجب ہے۔‘‘[1]

بلکہ حجۃ الوداع کے موقع پر خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے بطور خاص ذکر کیا کہ ’’ مانگی ہوئی چیز واپس کی جائے۔‘‘ [2]

ان احادیث کا تقاضا ہے کہ مانگی ہوئی چیز ( کتب وغیرہ ) کا اگر نقصان ہو جائے، یا گم ہو جائے یا ضائع ہو جائے تو لینے والے کو اس کی جگہ نئی چیز یا اس کی قیمت واپس کرنا پڑے گی۔ بہر حال مانگی ہوئی چیز کو شیر مادر سمجھ کر اسے ہضم کرنے کی قطعاً اجازت نہیں، خصوصاً عاریۃً لی ہوئی دینی کتب کے متعلق ہمیں اپنے رویے پر نظر ثانی کرنا چاہیے۔ ( واللہ اعلم)


[1] سنن أبي داؤد ، البیوع : ۳۵۶۱۔

[2] ترمذی ، البیوع: ۱۲۶۵۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:397

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ