سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(442) کرسمس ڈے کی شرعی حیثیت

  • 20705
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 3457

سوال

(442) کرسمس ڈے کی شرعی حیثیت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ہاں کچھ مسلمان کرسمس ڈے کو بڑے احترام سے مناتے ہیں اور عیسائیوں کے ساتھ یکجہتی اور رواداری کے طور پر ان کے خصوصی مشاغل میں حصہ لیتے ہیں، شریعت کے نظر میں کیا ایسا کرنا جائزہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کرسمس دو الفاظ سے مرکب ہے یعنی Christ(کرائسٹ) اس کا معنی مسیح اور Mass (ماس) اس کا معنی عبادت ہے یعنی اس کا مکمل معنی ’’مسیح کے یوم ولادت کی عبادت ‘‘ ہے، عام طور پر اسے ولادت مسیح کا دن کہا جاتا ہے، 25دسمبر کو عیسائی حضرات اسے مذہبی تہوار کے طور پر مناتے ہیں۔

موسوی شریعت کے مطابق پیدائش کے ایک ہفتے بعد بچے کا نام رکھا جاتا تھا اس لئے اس روایت کے مطابق مسیح کا نام بھی ایک ہفتہ بعد رکھا گیا ، اس لئے عیسائیوں کے ہاں پیدائش کا دن 25دسمبر کو منایا جاتا ہے، البتہ سال کا آغاز یکم جنوری سے ہوتاہے، بہرحال کرسمس ڈے عیسائیوں کا ایک مقدس تہوار ہے اور ان کے ہاں یہ عبادت کے طور پر منایا جاتا ہے ہماری شریعت میں یہ حکم ہے کہ یہود و نصاریٰ کی عبادات میں مخالفت کی جائے اور ان کی مشابہت سے اجتناب کیا جائے۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیگر دنوں کی نسبت ہفتہ اور اتوار کا روزہ رکھتے تھے اور اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے : ’’ دو دن مشرکین کے لئے عید کی حیثیت رکھتے ہیں لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ ان کی مخالفت کروں۔‘‘[1]

 اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کفار و مشرکین کی عیدوں میں ان کی مخالفت کر نے کو پسند کرتے تھے، لہٰذا جو لوگ کرسمس کے دن عیسائیوں کی عید میں شرکت کرتے ہیں یا خوشی کا کیک کاٹتے ہیں یا انہیں تحفے دیتے ہیں وہ تمام معاملات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے ہیں، اس کے متعلق قرآن کریم کی سخت وعید حسب ذیل ہے: ’’ جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرنا چاہیے مبادا ان پر کوئی آفت پڑ جائے یا انہیں تکلیف دہ عذاب آ پکڑے۔‘‘[2]

قرآن مجید میں ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: ’’ وہ جھوٹے کاموں میں شرکت نہیں کرتے۔‘‘ [3]اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے: ’’ ابو العالیہ طاؤس، محمد بن سیرین، ضحاک، ربیع بن انس اور دیگر اہل علم نے کہا ہے کہ ’’ زور‘‘ سے مراد مشرکین کی عیدیں ہیں۔ ‘‘[4]

ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جس نے کسی قوم کی مشابہت کی وہ انہی میں سے ہو گا۔ ‘‘[5]

امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ مسلمانوں کے لئےجائز نہیں کہ وہ کفار کی عیدوں، موسمی تہواروں اور عبادات میں ان کی مشابہت اختیار کریں۔ ‘‘[6]

ہمیں چاہیے کہ اپنے عقائد و نظریات اور اخلاق و کردار کا تحفظ کرتے ہوئے کفار و مشرکین اور یہود و نصاریٰ کی عیدوں میں شرکت نہ کریں اور نہ ہی تحائف کے ذریعے ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ ( واللہ اعلم)


[1] مسند أحمد ص ۳۲۴ج۶۔

[2] النور : ۶۳۔

[3] الفرقان: ۷۲۔

[4] ابن کثیر ص ۳۶۲ ج۳۔

[5] مسند أحمد ص ۵۰ ج۲۔

[6] البدایة والنھایة ص ۱۳۴ج۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:393

محدث فتویٰ

تبصرے