السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں ایک مسجد میں امام ہوں، بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ میں کسی ذاتی مصروفیت کی وجہ سے دو یا تین منٹ لیٹ ہو جاتا ہوں تو ایک شخص خود مصلیٰ پر کھڑا ہوتا ہے اور جماعت کرا دیتا ہے، میرا انتظار نہیں کیا جاتا ، ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی کے ہاں کوئی عالم دین مہمان آتا ہے تو میری اجازت کے بغیر اسے مصلیٰ پر کھڑا کر دیا جاتا ہے، کیا شرعی طور پر ایسا کیا جا سکتا ہے، کتاب و سنت کی روشنی میں اس مسئلہ کی وضاحت کریں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شریعت میں امامت ایک منصب اور عہدہ ہے لیکن ہمارے ہاں اسے ایک پیشہ خیال کیا جاتا ہے۔ برصغیر میں جس وقت انگریز کی حکومت تھی ، اس نے بڑی چلاکی اور ہوشیاری سے اس منصب کو عام پیشوں کے ساتھ کھڑا کر دیا۔ اب انگریز کی حکومت اگرچہ ختم ہو چکی ہے لیکن ہمارے ذہنوں میں بدستور اس کی چھاپ موجود ہے۔ چنانچہ ہمارے ہاں آج کسی امام کو ایک پیشہ ور ملازم کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے ، دراصل شویٔ قسمت سے اس پر فتن دور میں جو لوگ مساجد اور دینی مراکز چلانے کی صلاحیت و استعداد رکھتے ہیں وہ وسائل سے محروم ہیں اور جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے مالی وسائل مہیا کر رکھے ہیں وہ ان اسلامی چشموں کو رواں دواں رکھنے کی صلاحیت سے عاری ہیں ۔ اس کے باوجود ہم اپنے معزز ائمہ کرام کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ کسی بھی صورت میں اپنی خودداری کو مجروح نہ ہونے دیں، وہ ہر وقت اپنے منصب کا خیال رکھیں۔ سوال میں جن دو چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ اگرچہ ایک امام کے لئے بہت ہی حوصلہ شکن اور روح فرسا ہیں، تاہم وہ صبر سے کام لیں اور استقامت کے ساتھ اپنے مشن کو جاری رکھیں،ا للہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ضائع نہیں کرتا۔ جب ہم شریعت کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ قرون اولیٰ میں اگر امام کو دیر ہو جاتی اور اس کے آنے کی امیدنہ ہو تو اس کا انتظار کیا جاتا تھا جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرض وفات کے متعلق بیان کرتی ہیں: ’’ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تو آپ نے دریافت فرمایا کہ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے؟ ہم نے عرض کیا نہیں، یا رسول اللہ !وہ آپ کے انتظار میں ہیں، آپ نے وقفہ وقفہ سے تین دفعہ یہی دریافت فرمایا اور ہر دفعہ یہی جواب دیا گیا کہ وہ آپ کے انتظار میں ہیں۔ ‘‘ [1]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام نے آپ کے انتظار میں کافی تاخیر کی کیونکہ انہیں توقع تھی کہ آپ ضرور تشریف لائیں گے، اس لئے اگر امام کے آنے کی امید غالب ہوتو اس کا انتظار کرنا چاہیے، اگر آنے کی امید غالب نہ ہو تو کسی دوسرے کو مصلیٰ امامت پر کھڑا کیا جا سکتا ہےجیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ بنو عمرو بن عوف کے ہاں صلح کرانے کے لئے تشریف لے گئے تو ابو بکر رضی اللہ عنہ کو مصلیٰ امامت پر کھڑا کر دیا گیا، اسی طرح آپ غزوہ تبوک کے موقع پر قضاء حاجت کے لئے باہر تشریف لے گئے تو آپ کی عدم موجودگی میں صحابہ کرام نے حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں نماز ادا کی، یہ احادیث صحیح مسلم میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ [2]
اگر امام مسجد میں موجود ہے تو اس کی اجازت کے بغیر مصلیٰ امامت پر خود کھڑا ہونا چاہیے اور نہ کسی کو کھڑا کرنا چاہیے، ہاں اگر وہ اجازت دے دے تو الگ بات ہے جیسا کہ حدیث میں ہے: ’’ کوئی شخص کسی دوسرے کے گھر میں اس کی اجازت کے بغیرامامت نہ کرائے اورنہ ہی اس کے حلقہ عمل میں بالا اجازت کوئی اس کے مصلیٰ امامت پر کھڑا ہو۔[3]
ان احادیث کے پیش نظر مقتدی حضرات کو چاہیے کہ وہ ذرا صبر سے کام لے کر امام کا کچھ انتطار کر لیا کریں اور اگر کسی کا کوئی معزز مہمان ہے جو صاحب علم ہے تو بھی پہلے امام صاحب سے بات کر کے اسے اعتماد میں لے لیا جائے بلکہ امام خود پیش کش کرے کہ آپ امامت کا فریضہ سر انجام دیں تو یہ بہت خوش کن بات ہے۔ بہر حال امام کے منصب کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے، اسے تنخواہ دار ملازم خیال کرنا اس کے اس منصب کی توہین ہے جس سے ہمیں اجتناب کرنا چاہیے۔ (واللہ اعلم)
[1] صحیح مسلم ، الصلوٰة : ۳۹۶۔
[2] صحیح مسلم، کتاب الصلوٰة : ۹۳۶، ۹۵۲۔
[3] سنن أبي داؤد ، الصلوٰة : ۵۸۲۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب