سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(438) میت کے ذمے قرض کی ادائیگی

  • 20701
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 2558

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے والد جب فوت ہوئے ان کے ذمے ڈھیروں قرضہ تھا، بھائیوں نے ان کی جائیداد تقسیم کر لی ان کے ذمے قرض کی ادائیگی نہیں کی، میں خود مالی لحاظ سے اس پوزیشن میں نہیں ہوں کہ ان کا قرض اتار سکوں، اس سلسلہ میں ہماری راہنمائی کریں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن کریم نے ہماری راہنمائی کی ہے کہ مرنے والے کی جائیداد وصیت کی تکمیل اور ادائے قرض کے بعد تقسیم ہونی چاہیے۔ [1]

قرآنی آیت میں اگرچہ وصیت کا ذکر پہلے ہے لیکن احادیث سے پتہ چلاتا ہے کہ میت کے قرضے اس کی وصیت کے اجراء سے پہلے ادا ہونے چاہیں ۔ چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تم قرآن مجید میں وصیت کا ذکر قرضے سے پہلے پڑھتے ہو، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فیصلہ میں قرض کی دائیگی کو تکمیل وصیت پر مقدم رکھا ہے۔[2]

میت کے قرض کی ادائیگی کس قدر ضروری ہے اس کی اہمیت کا اس حدیث سے پتہ چلتا ہے : ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ مومن کی جان اس کےذمے قرض کے ساتھ لٹکی رہتی ہے، حتیٰ کہ اسے ادا کر دیا جائے۔ ‘‘[3]

اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ میت کے ذمے قرض کی عدم ادائیگی کی وجہ سے اسے جنت میں جانے سے روک دیا جاتا ہے، جب تک اسے ادا نہ کیا جائے وہ جنت سے محروم رہتا ہے ، صورت مسؤلہ میں یہ چاہیے تھا کہ میت کی جائیداد تقسیم کرنے سے قبل اس کے ذمے قرض کو ادا کیا جاتا ، بہر حال میت کے قرض کی ادائیگی انتہائی ضروری ہے، خواہ اسے ادا کرنے والے اقارب ہوں یا اجنبی ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مقروض کا جنازہ پڑھنے سے انکار کر دیا تو حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ اس کا جنازہ پڑھائیں، اس کا قرض میں ا دا کروں گا۔[4]

پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جنازہ پڑھایا۔ میت کے قرض کی ادائیگی درج ذیل طریقہ سے کی جائے:

٭  اس کا ترکہ تقسیم کرنے سے پہلے ترکہ سے قرض ادا کیا جائے۔ ٭  اگر ترکہ نہ ہو تو کوئی بھی مسلمان اس قرض کو ادا کرنے کی ذمہ داری اٹھا سکتا ہے۔ ٭  اگر کوئی ذمہ نہ اٹھائے تو بیت المال سے اس کی ادائیگی کی جائے۔ ٭  اگر بیت المال نہ ہو تو محلے کے مسلمان مل کر میت کا قرض ادا کریں۔ ( واللہ اعلم)


[1] النساء : ۱۱۔

[2] سنن الترمذي ، الفرائض: ۲۰۹۴۔

[3] سنن الترمذي ، الجنائز : ۱۰۷۸۔

[4] صحیح البخاري ، الکفالة : ۲۲۸۹۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:390

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ