سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(432) بیوی کو اپنے والدین کے ساتھ رہنے پر مجبور کرنا

  • 20695
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1175

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میری شادی آٹھ سال قبل ہوئی تھی، اب میرا ساس ، سسر اور دیور کے ساتھ رہنا مشکل ہے۔ میں نے اپنے خاوند سے علیحدہ رہائش کا مطالبہ کیا ہے لیکن وہ اس پر آمادہ نہیں۔ کیا میرا یہ مطالبہ غیر شرعی ہے، اس کے متعلق شرعی ہدایات مطلوب ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 خاوند نے جس عورت کو طلاق رجعی دے رکھی ہو اس کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (ترجمہ) ’’ تم اپنی طاقت کے مطابق جہاں تم خود رہتے ہو وہاں ان (طلاق والی) عورتوں کو رکھو۔‘‘ [1]

اس آیت کریمہ کے مطابق مطلقہ رجعیہ کے لیے رہائش ثابت ہے لیکن جو عورت آدمی کے نکاح میں ہے ، اس کے لئے تو بالاولیٰ واجب ہے۔ نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ ( ترجمہ ) ’’ تم ان عورتوں کے ساتھ اچھے طریقے کے ساتھ بود و باش اختیار کرو۔‘‘[2]

یہ بات معاشری طور پر معروف ہے کہ عورت کے لئے ایسی رہائش کا بندوبست ہونا چاہیے جہاں اس کی چادر چاردیواری کا تحفظ ہو، لوگوں کی نگاہوں سے بھی اوجھل رہے پھر مال و متاع کی حفاظت اور تعلقات زن و شوئی کے لئے بھی ’’ معقول رہائش‘‘ کا ہونا ضروری ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق عورت کا یہ مطالبہ بے جا نہیں کہ اس کے لئے علیحدہ اور الگ رہائش کا بندوبست ہو، اگر وقتی طور پر ایسی رہائش ممکن نہیں تو گھر میں کسی الگ کمرے میں رہائش کا بندو بست کر دیا جائے تاکہ کسی فتنے کا اندیشہ نہ ہو اور نہ ہی بالغ افراد کے ساتھ خلوت کا خدشہ ہو، اگر گھر میں خاوند کے بالغ بھائی موجود ہیں تو معاملہ مزید نازک ہو جاتا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

’’ تم عورتوں کے پاس جانے سے گریز کرو، ایک انصاری نے عرض کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! خاوند کے عزیز و اقارب کے متعلق آپ کا کیا حکم ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خاوند کے عزیز و اقارب تو موت ہیں۔‘‘[3]

اس حدیث کے پیش نظر ہم خاوند کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ اپنی بیوی اور بال بچوں کے لئے علیحدہ رہائش یا کم از کم الگ کمرے کا بندو بست کرے، اس میں خیر و برکت ہے لیکن اگر اس کے والدین بوڑھے ہیں اور اپنے بیٹے کے محتاج ہیں تو ہم اس کی بیوی کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ انہیں اپنے والدین کا مقام دے کر ان کی خدمت کرے اور ان کی دعائیں لے۔ اگر ان سے کوئی تکلیف پہنچی ہے تو اس پر صبر کرے، امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس خدمت گزاری کے بدلے خیر کثیر سے نوازے گا۔ کوشش کی جائے کہ اپنے خاوند اور اس کے والدین کو زیادہ سے زیادہ سہولت اور آرام دیا جائے۔ خاوند کو بھی چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں برد باری اور تحمل مزاجی کا مظاہرہ کرے اور گاہے بگاہے اپنے والدین سے عرض کرتا رہے کہ وہ اپنی بیٹی کے ساتھ محبت و پیار سے پیش آئیں اور اسے اپنی حقیقی بیٹی کا مقام دیں، اس سے حالات کے خوشگوار ہونے میں بہت مدد ملے گی۔اللہ تعالیٰ ہمیں کتاب و سنت کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق دے۔ آمین!


[1] الطلاق: ۶۔

[2] النساء : ۱۹۔

[3] صحیح مسلم، السلام : ۲۱۷۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:386

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ