السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے سامنے 11جولائی2011ء کا نوائے وقت ہے، محکمہ بہبودی آبادی حکومت پنجاب کی طرف سے ’’عالمی یوم آبادی ‘‘ کے عنوان سے اس کا خصوصی ایڈیشن شائع کیا گیاہے جس میں ’’ آبادی زیادہ، وسائل کم ‘‘ کے عنوان سے ایک مزاحیہ مشاعرہ منعقد کرانے کا اعلان ہے۔ اس اعلان کے ایک طرف حاملہ عورت کی تصویر ہے جس کے حمل کو خوب نمایاں کیا گیا ہے اور وہ دو چھوٹے بچے اٹھائے ہوئےدکھائی گئی ہے پھر اس کی چٹیا کے ساتھ کپڑے کا ایک کنارہ باندھا گیا ہے ، اس کا دوسرا کنارہ ایک مرد درویش کی داڑھی سے باندھ کر ایک جھولا بنایا گیا ہے جس میں شیر خوار بچہ لیٹا ہوا ہے، اس طرح عورت اور داڑھی دونوں کی تذلیل کی گئی ہے۔ دین اسلام میں شعائر دین کے ساتھ اس طرح کا مذاق کرنے والوں کی کیا سزا ہے؟ ہم حیران ہیں کہ اس قسم کے استہزاء و مذاق وہ بھی صنف نازک اور شریعت مطہرہ کے ساتھ، ایسے لوگوں کے متعلق شرعی فتویٰ در کار ہے؟ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے ۔ آمین
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
خاندانی منصوبہ بندی جس کا نیا نام محکمہ بہبود آبادی ہے، آئے دن پاکستانی آبادی کنٹرول کرنے کے لئے نئے نئے تجربے کرتاہے ، لیکن اللہ کی تقدیر کے سامنے بے بس و لاچار ہے ، چنانچہ اسی اخبار میں ایک مضمون نگار لکھتا ہے:’’ شرح پیدائش میں کمی اور آبادی پر کنڑول کرنے کی محکمہ بہبود آبادی کی کاوشوں کی نیم قدامت پسند اور مذہبی تعلیمات کا ادراک نہ رکھنے والے طبقوں کی طرف سے ہمیشہ مخالفت کی جاتی رہی ہے۔ لوگ تقدیر اور قضاء و قدر پر کچھ اس طرح کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ بہبود آبادی کے ضمن میں دیئے جانے والے دلائل انہیں قائل نہیں کر پاتے۔ ‘‘
بہر حال محکمہ بہبود آبادی اور اس کی حمایت کرنے والوں کی پسپائی کو ئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے،ایسے حضرات کی طرف سے شعائر اسلام کی توہین اورو تذلیل بعید از عقل نہیں۔ انہیں یہ غم ہلکان کئے جا رہا ہے کہ پانی کی طرح پیسہ خرچ کرنے کے باوجود انہیں کامیابی کیوں نہیں ملتی ، اس طرح توہین آمیز اشتہارات ان کے اندرونی غم و غصے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ بہر حال دین اسلام میں داڑھی کا جو مقام ہے وہ اہل علم سے مخفی نہیں ، داڑھی ، شعائر اسلام سے ہے اور یہ ایک مسلمان کے لئے شناختی علامت اور امتیازی نشان ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کئی ایک طریقوں سے اس کی حیثیت و اہمیت سے آگاہ فرمایا ہے ، درج ذیل حقائق سے ہم اس کی اہمیت واضح کرتے ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے : ’’ داڑھی بڑھانے کا بیان۔‘‘[1]
اس کے تحت حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث لائے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ مونچھوں کو پست کرو اور داڑھی کو بڑھاؤ۔‘‘[2]
داڑھی بڑھانے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ آپ کا امر وجوب کے لئے ہے اِلا یہ کہ اس کے خلاف کوئی قرینہ صارفہ ہو ۔
٭ داڑھی سے چھیڑ چھاڑ کرنا یہود و نصاریٰ اور مشرکین و مجوس کا عمل ہے ، جبکہ ہمیں اس سلسلہ میں ان کی مخالفت کرنے کا حکم ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’ مشرکین کی مخالفت کرو ، داڑھی بڑھاؤ اور مونچھیں پست کرو۔ ‘‘[3]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود و نصاریٰ کی مخالفت کرنے کے متعلق فرمایا : ’’ تم اہل کتاب کی مخالفت کرو اپنی داڑھی بڑھاؤ اور مونچھیں پست کرو۔‘‘ [4]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایرانی مجوسیوں کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا: ’’ یہ لوگ اپنی مونچھیں بڑھاتے ہیں اور داڑھی منڈواتے ہیں، تم ان کی مخالفت کرو، اپنی داڑھی بڑھاؤ اور مونچھیں چھوٹی کرو۔‘‘ [5]
٭ داڑھی بڑھانا امور فطرت سے ہے جیسا کہ حدیث میں ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ فطری امور دس ہیں، مونچھیں کتروانا، داڑھی بڑھانا ، مسواک کرنا ، ناک میں پانی ڈالنا، ناخن تراشنا ، جوڑوں کا دھونا، بغلوں کے بال اکھیڑنا ، زیر ناف بالوں کی صفائی کرنا، استنجا کرنا اور کلی کرنا۔ ‘‘[6]
ان امور کا اختیار کرنا اس قدر اہم ہے گویا جبلی اور خلقی ہیں، تمام انبیائے کرام نے ان امور کا التزام کیا ہے اور یہ امور اسلامی شعار بھی ہیں۔ اس حدیث کے پیش نظر داڑھی کو اپنی فطرتی حالت میں رہنے دیا جائے اور اس کے ساتھ کوئی غیر فطرتی عمل نہ کیا جائے۔
٭ قرآن کریم میں ابلیس لعین کے حوالے سے یہ بیان ہوا ہے کہ میں انہیں حکم دوں گا چنانچہ لوگ اللہ تعالیٰ کی خلقت کو تبدیل کریں گے۔ [7]
اس آیت کے پیش نظر جن امور فطرت میں اللہ تعالیٰ نے تبدیلی کرنے کا حکم دیا ہے وہ جائز اور مباح ہیں مثلاً ختنہ کرنا، زیر ناف بال صاف کرنا ، البتہ داڑھی کے تعلق تبدیلی کرنے کا کہیں بھی اللہ تعالیٰ نے حکم نہیں دیا ہے۔ لہٰذا اس کی کانٹ چھانٹ کرنا ان شیطانی امور سے ہے جن کا ابلیس نے اولاد آدم کو حکم دیا۔ اور وہ اس کی بجا آوری کر رہے ہیں، اس پہلو سے بھی داڑھی کے معاملہ پر غور کرنا چاہیے۔ نیز اس سے داڑھی کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے کہ اس کا اسلام میں کیامقام ہے۔
٭ ہمیں نسوانی مشابہت کرنے سے منع کیا گیا ہے بلکہ حدیث میں ایسے مردوں پر لعنت کی گئی ہے جو عورتوں سے مشابہت اختیار کرتے ہیں اور ان عورتوں کو بھی ملعون قرار دیا گیا ہے جو مردوں سے مشابہت اختیار کرتی ہیں۔ [8]
عورتوں کی داڑھی نہیں ہوتی، ہم داڑھی منڈوا کر عورتوں سے مشابہت اختیار کرتے ہیں جو کہ باعث لعنت ہے، اس سے محفوظ رہنے کا یہی طریقہ ہے کہ داڑھی کو اپنی حالت پر رہنے دیا جائے اور اس کے ساتھ کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے۔
٭ داڑھی کی اہمیت کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو ایرانی آئے جن کی داڑھیاں مونڈی ہوئی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اظہار نفرت کرتے ہوئے انہیں دیکھنا گوارہ نہیں کیا ۔ بلکہ آپ نے فرمایا کہ مجھے تو میرے رب نے داڑھی بڑھانے کا حکم دیا ہے اور تمہیں یہ شکل و صورت بنانے کا کس نے حکم دیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں بھی ہمارے رب ( بادشاہ) نے اس بات کا حکم دیا ہے۔ اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام میں داڑھی کا بہت اونچا مقام ہے۔ اب جو لوگ اس داڑھی کو اپنی حالت میں رکھنے کی بجائے اس کے ساتھ غیر فطرتی سلوک کرتے ہیں بلکہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں جیسا کہ سوال میں ذکر ہوا ہے، ان کے متعلق قرآن کریم کا صریح حکم ہے کہ قرآنی آیات یا اسلامی شعائر کے ساتھ مذاق کرنا سنگین جرم ہے۔ چنانچہ مکہ میں رہتے ہوئےمشرکین مکہ اسلامی شعائر کا مذاق اڑاتے تھے تو مسلمانوں کو ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے منع فرما دیا گیا۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’ اورجب آپ ان لوگوں کو دیکھیں جو ہماری آیات میں نکتہ چینیاں کرتے ہیں تو ان کے پاس بیٹھنے سے اعراض کریں تا آنکہ وہ کسی دوسری بات میں مصروف ہو جائیں۔ ‘‘[9]
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جو انسان اسلامی شعائر کے ساتھ مذاق کرتا ہے وہ اس قدر بدبخت ہے کہ اس کے پاس بیٹھنے کی اجازت نہیں ہے، مسلمان جب ہجرت کر کے مدینہ گئے تووہاں منافقین اور یہود و نصاریٰ بھی کفار مکہ کا کردار ادا کرنے لگے، اس وقت اللہ تعالیٰ نے دوبارہ مسلمانوں کو خبر دار کرتے ہوئے فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں یہ حکم پہلے نازل کر چکا ہے کہ تم جب سنو، آیات الٰہی کا انکار کیا جا رہا ہے اور ان کے ساتھ مذاق اڑایا جا رہا ہے تو وہاں ان کے ساتھ مت بیٹھو ، تاآنکہ یہ لوگ اپنا موضوع بدل لیں۔ بصورت دیگر تم بھی اس وقت انہی جیسے ہو جاؤ گے، بلا شبہ اللہ تعالیٰ منافقوں اور کافروں کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے۔‘‘[10]
یعنی جو لوگ ایسی مجالس میں بیٹھیں جہاں علانیہ اللہ تعالیٰ کی آیات کا مذاق اڑایا جا رہا ہو اور شعائر اسلام کی توہین کی جارہی ہو یا سرے سے ان کا انکار کیا جا رہا ہو اور وہ ایسی باتیں سن کر ٹھنڈے دل سے سن کروہیں بیٹھے رہیں اور ان کی غیرت ایمانی کو ذرا بھی جنبش نہ آئے تو ان میں اور کافروں میں کوئی فرق نہیں رہتا، ایسی صورت میں ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی ناراضگی کا اظہار کر دے اور ان کی زبانیں بند کرنے کے لئے کوئی حیلہ گری کرے اور اگر دلائل سے انہیں حق بات کا قائل کر سکتا ہو تو ضرور کرے اور اگر یہ دونوں کام نہیں کر سکتا تو کم ازکم خود وہاں سے اٹھ کر چلا جائے۔ واضح رہے کہ سورۃ انعام مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی تھی اور مکہ میں شعائر اسلام اور آیات الٰہی کا تمسخر کرنے والے کفار مکہ تھے اور سورۃ النساء مدینہ طیبہ میں نازل ہوئی۔ یہاں اللہ کی آیات اور شعائر اسلام کا مذاق کرنے والے یہود مدینہ اور منافقین تھے گویا آیات الٰہی اور شعائر اسلام کا مذاق اڑانا ہر طرح کے کافروں کا پرانا دستور ہے، قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ایک مقام پر منافقین کا ذکر کرتےہوئے فرمایا: ’’ اگر آپ ان سے پوچھیں تو کہہ دیں گے، ہم تو صرف مذاق اور دل لگی کر رہے تھے ، آپ ان سے کہہ دیں کہ کیا تمہاری ہنسی اور دل لگی ، اللہ اس کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ ہی ہوتی ہے، بہانے نہ بناؤ تم واقعی ایمان لانے کے بعد کافر ہو چکے ہو۔ ‘‘[11]
یہ آیات غزوہ تبوک کے موقع پر نازل ہوئیں ، اس وقت مسلمانوں کے ساتھ منافقین کی ایک جماعت بھی شامل تھی ، اسلام اور اہل اسلام سے مذاق کرنا ان کا محبوب مشغلہ تھا، جب ان سے باز پرس کی گئی تو کہنے لگے کہ ہم تو یہ باتیں اس طویل سفر میں محض دل بہلاوے کے طور پر کر رہے تھے، سنجیدگی سے نہیں کر رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا یہ جواب دیا کہ کیا انہیں اس دل بہلاوے اور ہنسی مذاق کےلئے ایسی ہی باتیں سوجھتی ہیں جن میں اللہ اور اس کے رسول کی سبکی ہوتی ہو اور اسلام کی سر بلندی کے مقصد کو نقصان پہنچتا ہو؟ تمہارے متعلق ہمارا فیصلہ یہ ہے کہ تم اسلام سے خارج ہو چکے ہو۔
اخبار کے خصوصی ایڈیشن میں جو مزاحیہ مشاعرہ کا اعلان ہواہے اور اس کے ساتھ جو مزاحیہ تصویر شائع ہوئی ہے، اس میں بھی ایک صنف نازک کے ساتھ مذاق کیا گیا ہےکہ اس کے حمل کو خوب نمایاں کیا گیاہےپھر داڑھی کے ساتھ کپڑا باندھ کر اس کا مذاق کیا گیا ہے۔ بلاشبہ ایسے لوگ بہت بڑے گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں، اگر وہ صدق دل سے توبہ کر لیں اور اخبار میں اپنی معذرت شائع کر دیں تو یہ جرم معاف ہو سکتا ہے بصورت دیگر ان کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اہل اسلام کو چاہیے کہ اس قماش کے لوگوں اور یہ گھناؤنا کردار اد اکرنے والے اخبارات کا بائیکاٹ کریں اگر اہل اسلام ایسا نہیں کریں گے تو قرآن کریم کے مطابق یہ ٹھنڈے پیٹ اس جرم کو برداشت کرنے والے بھی جرم کرنے والوں کی طرح ہوں گے۔ (واللہ اعلم)
[1] صحیح البخاري ، اللباس باب نمبر ۶۵۔
[2] صحیح البخاري ، اللباس باب نمبر ۵۸۹۲۔
[3] صحیح البخاري ، اللباس: ۵۸۹۲۔
[4] مسند إمام أحمد ص ۲۶۵ ج ۵۔
[5] ابن حبان ص ۴۰۸ ج۱۔
[6] صحیح مسلم ، الطھارة : ۲۶۱۔
[7] النساء : ۱۱۹۔
[8] صحیح البخاري، اللباس: ۵۸۸۵۔
[9] الانعام : ۶۷۔
[10] النساء : ۱۴۰۔
[11] التوبة : ۶۶۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب