السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میری شادی کو چھ ماہ ہوئے ہیں، بیوی دینی تعلیم سے آراستہ ہے ، میرے ماموں اور اس کے بیٹے ملاقات کے لئے گھر آئے ، میں اس وقت گھر میں نہیں تھا، ماموں نے گھنٹی بجائی تو بیوی نے آواز دی کہ شوہر گھر میں نہیں ہیں، انہوں نے بتایا کہ میں تمہارا ماموں ہوں اور میرا نام یہ ہے ، لیکن بیوی نے کہا کہ وہ گھر میں نہیں ہیں، یہ سن کر وہ واپس چلے گئے ،اس وقت سے آج تک ماموں ناراض اور ان کے بیٹے بھی خفا ہیں۔ مسئلہ حل نہیں ہو رہا ، اس مسئلہ کے متعلق ہماری راہنمائی فرمائیں کہ اگر بیوی کسی رشتہ دار کو بیٹھک کا دروازہ کھول کر بٹھا دے تو کیا یہ پردہ داری کے خلاف ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس میں شک نہیں ہے کہ بیوی کا فرمانبردار ہونا بہت بڑی نعمت ہے اگرچہ وہ دینی تعلیم سے آراستہ نہ ہو، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ کونسی عورت بہتر ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ وہ جو اپنے خاوند کو خوش کر دے جب وہ اسے دیکھے، جب وہ اسے کوئی حکم دے تو اس کی بجا آوری کرے اور اپنے مال و جان میں خاوند کی مرضی کے خلاف ایسا کام نہ کرے جو اسے ناپسند ہو۔ ‘‘[1]
بیوی کا دینی تعلیم سے آراستہ ہونا بھی اللہ تعالیٰ کافضل ہے بشرطیکہ وہ اپنے خاوند کے گھر میں مخدوم بننے کے بجائے خادم بن کر رہے۔ صورت مسؤلہ کس قدر تکلیف دہ ہے کہ بیوی کی ظاہری دینداری نے قطع رحمی تک پہنچا دیا ہے، اگرچہ خاوند کا ماموں، بیوی کا ماموں نہیں بن جاتا، اس سے پردہ کے احکام وہی ہیں جو کسی اجنبی سے پردہ کرنے کے ہوتے ہیں لیکن پردہ میں رہتے ہوئے مہمان نوازی اور رواداری کا مظاہرہ کرنے میں چنداں حرج نہیں۔ اگر بیوی ، بیٹھک کا دروازہ کھول کر انہیں بٹھا دیتی اور ان کی احوال پرسی کر لیتی تو ایسا کرنے سے اس کا پردہ محفوظ رہتا ، لیکن بیوی کی ظاہری دینداری سے معاملہ کہاں سے کہاں تک پہنچ گیا ہے۔ ہمارے معاشرہ میں بیسیوں لوگ اس قسم کے مسائل سے دو چار ہیں، ان پر گہری نظر اور سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا ہمیں خیر القرون کے ایک واقعہ سے اس قسم کے مسائل کے متعلق راہنمائی ملتی ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ’’ کسی روز یا کسی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ہو گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: اس وقت تمہیں کس چیز نے تمہارے گھروں سے نکالا ہے؟ انہوں نے عرض کیا: ہمیں بھوک نے ستایا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، مجھے بھی اسی چیز نے نکالا جس نے تمہیں نکالا ہے۔ چلو، چنانچہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل دیئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری کے پاس تشریف لائے لیکن اتفاق سے وہ گھر میں نہیں تھے، جب اس کی اہلیہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو انہیں خوش آمدید کہا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: فلاں کہاں ہے؟ اس نے عرض کیا وہ ہمارے لئے میٹھا پانی لینے گئے ہیں، اتنے میں وہ انصاری بھی آگئے ، جب اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دونوں ساتھیوں کو دیکھا تو خوشی سے پکار اٹھا : الحمد للہ ! مہمانی کے لحاظ سے آج کا دن میرے لئے بہت ہی باعث عزت ہے۔ چنانچہ وہ شخص گیا اور باغ سے کھجوروں کا ایک خوشہ توڑ لایا جس میں کُچی، پکی اور عمدہ ہر قسم کی کھجوریں تھیں، اس نے عرض کیا: آپ انہیں تناول فرمائیں۔ [2]
اس حدیث سے اتنا تو معلوم ہوتا ہے کہ کسی مجبوری کے وقت عورت کسی اجنبی سے بات کر سکتی ہے اور اسے جواب بھی دے سکتی ہے نیز وہ عورت ایسےاجنبی کو گھر میں بلا سکتی ہے اور اکرام و عزت کے ساتھ بٹھا سکتی ہے جس کے آنے سے خاوند راضی ہو، ایسا کرنا پردہ داری اوردینداری کے خلاف نہیں ہے، اسی طرح کے ایک دوسرے واقعہ سے بھی راہنمائی ملتی ہے۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جس وقت میری شادی حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے ہوئی تو اس وقت ہمارے گھر میں بہت غربت تھی، میں حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی خوراک کا خود بندوبست کرتی تھی اور مدینہ سے چھ میل دوراِن کے باغ سے کھجور کی گٹھلیاں اپنے سر پر اٹھا کر لاتی تھی، ایک دن میں آ رہی تھی کہ راستہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انصار کے چند لوگوں کے ہمراہ میرے سامنے آئے، انہوں نے مجھے بلایا اور مجھے اپنے پیچھے سوار کرنے کے لئے اپنی سواری کو بٹھایا لیکن مجھے حیا دامن گیر ہوا کہ میں اجنبی آدمیوں کے ساتھ سفر کروں پھر مجھے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اور ان کی غیرت کا بھی خیال آیا اور وہ اس سلسلہ میں بہت غیور شخص تھے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ مجھے شرم آ رہی ہے تو آپ وہاں سے چل دیئے، بہر حال میں اسی حالت میں پیدل چلتے چلتے اپنے گھر کو آ گئی اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے سارا واقعہ بیان کیا تو انہوں نے فرمایا: ’’ اللہ کی قسم! آپ کا اتنی دور سے سر پر گٹھلیاں اٹھا کر لانا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سوار ہونے سے زیادہ گراں تھا۔ ‘‘[3]
اس واقعہ سے بھی پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اس قسم کی مصنوعی پردہ داری کا رواج نہ تھا جو ہمارے معاشرہ میں در آئی ہے اور اس نے رشتہ داروں کو ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے لئے غیر محرم تھے، اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے پیچھے بٹھانے کی پیشکش کی۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کی حیاداری اپنی جگہ ہے لیکن حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کا جواب کہ تیرا تنے دور سے اپنے سر پر گٹھلیاں اٹھا کر لانا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سوار ہونے سے زیادہ گراں تھا۔ انہوں نے بھی دبے الفاظ میں حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کی شرم و حیا کو اچھا خیال نہیں کیا، بہر حال خاوند کی عدم موجودگی میں گھر مہمان آجائے تو اس کی تکریم میں ہماری مروجہ حیاداری حائل نہیں ہونا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ نے پردے کے احکام بیان کرنے کے بعد فرمایا ہے: ’’ تمہارے اور ان کے دلوں کے لئے کامل پاکیزگی یہی ہے۔‘‘ [4]
اس ارشادِباری تعالیٰ میں پردے کا مقصد قلب و نظر کی طہارت اور عصمت و ناموس کی حفاظت قرار دیا گیا ہے، اس کے بعد آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’ عورتو! تم اللہ تعالیٰ سے ڈرتی رہو، یقیناً اللہ تعالیٰ ہر چیز پر شاہد ہے۔‘‘[5]
اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو تقویٰ شعاری کا حکم دے کر یہ واضح کر دیا ہے کہ اگر تمہارے دلوں میں تقویٰ ہو گا تو پردے کا اصل مقصد قلب و نظر کی طہارت یقیناً تمہیں حاصل ہو گی ۔ بصورت دیگر ہم نے خود دیکھا ہے کہ حجاب کی ظاہری پابندیاں گناہ میں ملوث ہونے سے نہ بچا سکیں ا ور لمبے لمبے گھونگٹ نکالنے والی بظاہر دیندار دوشیزائیں رات کی تاریکی میں اپنے آشناؤں کے ساتھ بھاگ کر اپنے والدین اور بھائیوں کی عزت و ناموس خاک میں ملا دیتی ہیں۔ اعاذنا اللہ منہ
واضح رہے کہ ہماری دراز نفسی کا مطلب پردے کے احکام میں نرمی کرنا قطعاً نہیں بلکہ ہم صرف کہنا چاہتےہیں کہ شرعی پردے کے ساتھ ساتھ معاشرے کے دوسرے حقوق بھی ادا کرنے چاہئیں تاکہ ہم کسی بھی قسم کی اخلاقی گراوٹ یا بے مروتی کا شکار نہ ہوں۔ ( واللہ اعلم)
[1] سنن النسائي ، النکاح : ۳۲۳۱۔
[2] صحیح مسلم، الاشربة : ۵۳۱۳۔
[3] صحیح البخاري ، النکاح : ۵۲۲۴۔
[4] الاحزاب : ۵۳۔
[5] الاحزاب: ۵۵۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب