سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(417) قربانی اور منکرین حدیث

  • 20680
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 782

سوال

(417) قربانی اور منکرین حدیث

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

منکرین حدیث کہتے ہیں کہ قرآن کریم میں قربانی کا ذکر حج کے بیان میں ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ قربانی صرف حجاج کرام کے لئے ہے، عام لوگ قربانی کے حکم سے مستثنیٰ ہیں۔ اس اعتراض کا کیا جواب ہے ، تفصیل سے آگاہ فرمائیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 اس میں شک نہیں کہ قربانی کا ذکر حج کے بیان میں ہوا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ قربانی کے اونٹ ہم نے تمہارےلیے اللہ تعالیٰ کی نشانیاں بنا دی ہیں ان میں تمہارے لئے خیر و برکت ہے، اس لئے تم انہیں کھڑا کر کے اللہ کا نام لو پھر جب ان کے پہلو زمین سے لگ جائیں تو اسے خود بھی کھاؤ ، سوال سے رُکنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ۔‘‘[1]

اس آیت میں قربانی کے اونٹوں کا ذکر مسائل حج میں بیان ہوا ہے ، اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ قربانی صرف حجاج کرام کے لئے ہے، دوسرے مسلمانون کے لئے ضروری نہیں، کیونکہ قربانی کا ذکردوسرے مقامات پر مطلقاً بھی آیا ہے جہاں حج وغیرہ کا ذکر نہیں، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ اپنے رب کے لئے نماز پڑھ اور قربانی کر۔‘‘ [2]

اس آیت کریمہ کی تفسیر و تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے منصب کے لحاظ سے کی ہے کہ آپ دس سال مدینہ طیبہ میں رہے اور قربانی کرتے رہے ، دوسرے مسلمانوں کو بھی قربانی دینے کی ترغیب دلائی اور قربانی کے احکام و مسائل بیان فرمائے، ان میں سے ایک مسئلہ درج ذیل ہے: ’’ جس نے نماز عید پڑھنے سے پہلے قربانی کی وہ اس کی جگہ پر اور قربانی کرے اور جس نے نماز سے پہلے قربانی ذبح نہیں کی وہ نماز کے بعد قربانی کرے۔ ‘‘[3]

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قربانی صرف حاجیوں کے لئے نہیں بلکہ اس کا حکم ہر مسلمان کے لئے ہے وہ جہاں کہیں بھی ہو کیونکہ حجاج کرام تو عید کی نماز نہیں پڑھتے۔ اس کے علاوہ قرآن کریم میں ایک جگہ پر یہود کے کردار کو بایں الفاظ بیان کیا گیا ہے: ’’ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم کسی رسول کو نہ مانیں جب تک وہ ہمارے پاس ایسی قربانی نہ لائے جسے آگ کھا جائے۔ ‘‘[4]

اس آیت میں بھی قربانی کا ذکر ہے اور حاجیوں کے ساتھ اس کا کوئ تعلق نہیں ۔ بہر حال منکرین حدیث کا مذکورہ دعویٰ کہ قربانی صرف حاجیوں کے لئے ہے دوسرے مسلمانوں کے لئے نہیں، اس دعویٰ کی کوئی حیثیت نہیں۔ بلکہ قربانی کا حکم جس طرح حاجیوں کے لئے ہے اسی طرح دوسرے مسلمانوں کے لئے بھی ہے اگرچہ دوسرے مسلمانوں کے لئے یہ واجب نہیں بلکہ سنت مؤکدہ ہے۔(واللہ اعلم)


[1] الحج: ۳۶۔

[2] الکوثر : ۲۔

[3] صحیح البخاري ، الاضاحی: ۵۵۶۲۔

[4] آل عمران: ۱۸۳۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:366

محدث فتویٰ

تبصرے