السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قربانی کی شرعی حیثیت کے متعلق وضاحت کریں، آیا یہ واجب ہے یا مستحب ، قرآن و حدیث میں اس کے متعلق کیا تصریحات ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قربانی واجب یا مستحب ہونے کے متعلق اہل علم کا اختلاف ہے ، احناف اور کچھ مالکی حضرات کا کہنا ہے کہ ہر صاحب استطاعت پر قربانی کرنا واجب ہے جبکہ جمہور اہل علم کا موقف ہے کہ قربانی واجب نہیں بلکہ سنت ہے البتہ اس کے متعلق بہت تاکید کی گئی ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق قربانی سنت مؤکدہ ہے۔ چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’ قربانی کے سنت ہونے کا بیان ‘‘[1]
پھر انہوں نے اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لئے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا درج ذیل قول نقل کیا ہے: ’’ قربانی کرنا سنت اور ایک مشہور امر ہے۔‘‘
انہوں نے اس سلسلہ میں ایک حدیث بھی نقل کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: ’’ جس نے نماز عید کے بعد اپنا جانور ذبح کیا، اس کی قربانی مکمل ہوئی اور وہ اہل اسلام کے طریقے کو پہنچا۔ ‘‘ [2]
امام بخاری رحمہ اللہ کے پیش کردہ دلائل کے علاوہ درج ذیل دلائل بھی ہمارے موقف کی تائید کرتے ہیں:
٭ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جب ذوالحجہ کا پہلا عشرہ آ جائے تو اگر تم میں سے کوئی قربانی کرنا چاہتا ہے، اسے چاہیے کہ اپنے بالوں اور جسم کے کسی حصہ سے کچھ نہ کاٹے۔ ‘‘[3]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے عمل کو قربانی کرنے والے کی مرضی پر موقوف رکھا ہے جو اس کے غیر واجب ہونے کی دلیل ہے۔
٭ متعدد صحابہ کرام سے صراحت ہے کہ قربانی واجب نہیں چنانچہ روایات میں ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ قربانی نہیں کرتے تھے۔ [4]
اسی طرح حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں خوشحال ہونے کے باوجود قربانی نہیں کرتا، مبادا میرے پڑوسی اسے لازم خیال کریں۔ [5]
محدثین کرام نے اس حدیث کے موقوف ہونے کو راجح قرار دیا ہے جیسا کہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس امر کی صراحت کی ہے، جن حضرات نے قربانی کو واجب کہا ہے انہوں نے ایسی روایات پیش کی ہیں جو دلالت کے اعتبار سے صریح نہیں اور جو صریح ہیں وہ سند کے لحاظ سے صحیح نہیں ہیں۔ ( واللہ اعلم)
[1] صحیح البخاري، کتاب الاضاحی۔
[2] صحیح البخاري ، الاضاحی : ۵۵۴۶۔
[3] مسند أحمد ص ۲۸۹ج۶۔
[4] سنن البیھقي ص ۲۶۹ ج۹۔
[5] مصنف عبد الرزاق : ۸۱۴۹۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب