السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عید قربان کے موقع پر بھینس کی قربانی کا مسئلہ زیر بحث آتا رہتا ہے ، اس کے متعلق صحیح موقف کیا ہے، اس سلسلہ میں ہماری راہنمائی کریں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قربانی کے متعلق قرآن کریم میں صراحت ہے کہ وہ ’’بھیمۃ الانعام ‘‘ سے ہونا چاہیے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ ہم نے ہر امت کے لئے قربانی کے طریقے مقرر کئے ہیں تاکہ وہ مویشی قسم کے ان چوپائیوں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں۔ ‘‘ [1]
قرآن کریم کی تصریح کے مطابق لفظ ’’الانعام ‘‘ میں چار قسم کے نر اور مادہ جانور شامل ہیں:
1 اونٹ 2 گائے 3 بھیڑ(دنبہ) 4 بکری۔
اس امر کی وضاحت سورۃ الانعام آیت نمبر ۱۴۳ اور آیت نمبر ۱۴۴ میں دیکھی جا سکتی ہے ۔ ہمارے رجحان کے مطابق قربانی کے سلسلہ میں صرف انہی جانوروں پر اکتفا کیا جائے جن پر بھیمۃ الانعام کا لفظ بولا جا سکتا ہے اور وہ صرف اونٹ ، گائے، بھیڑ (دنبہ) اور بکری ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اونٹ ، گائے، دنبہ اور بکری کی قربانی کا ہی ثبوت ملتا ہے چونکہ بھینس ان جانوروں میں شامل نہیں لہٰذا قربانی میں اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ جو حضرات اس کے قائل اور فاعل ہیں وہ اسے گائے پر قیاس کرتے ہیں یا اسے گائے کی جنس قرار دیتے ہیں، حالانکہ بھینس ایک الگ جنس ہے جو تقریباً دس وجوہ سے اپنا امتیاز قائم کرتی ہے یعنی اس کا گوشت اور اس کی تاثیر، اس کا دودھ اور مکھن نیز اس کی رنگت اور تاثیر پھر اس کے رہنے کا طریقہ اور بچہ جنم دینے کا وقت گائے سے جداگانہ حیثیت رکھتا ہے ۔ ہم نے اپنے ایک فتویٰ میں ان وجوہ کو تفصیل سے بیان کیا ہے جو اسے گائے سے ممتاز کرتی ہیں، پھر قیاس کے لئے کوئی علت مشترک ہونی چاہیے جو ان میں نہیں پائی جاتی۔
حافظ عبد اللہ روپڑی مرحوم نے اس سلسلہ میں بڑا اچھا موقف اختیار کیا ہے کہ زکوٰۃ کے سلسلہ میں احتیاط یہ ہےکہ گائے پر اسے قیاس کرتے ہوئے اس سے زکوٰۃ دی جائے اور قربانی کے سلسلہ میں احتیاط یہ ہے کہ اسے اجتناب کیا جائے ۔ ہمارے رجحان کے مطابق مبنی بر احتیاط اور راجح موقف یہی ہے کہ بھینس کی قربانی نہ دی جائے بلکہ مسنون قربانی اونٹ، گائے، بھیڑ( دنبہ ) اور بکری سے ہی کی جائے، جب یہ جانور بسہولت دستیاب ہیں تو ان کے ہوتے ہوئے مشتبہ امور سے اجتناب کرنا چاہیے۔ حدیث میں ہے: ’’ ایسی چیز ک چھوڑ دو جو تجھے شک میں ڈالے اور ایسی چیز کو اختیار کرو جو تمہیں شک میں نہ ڈالے۔‘‘ (واللہ اعلم)
[1] الحج : ۳۴۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب