السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نومولود کی پیدائش کے ساتویں دن عقیقہ کیا جاتا ہے، کیا عقیقہ میں بڑا جانور گائے یا اونٹ وغیرہ ذبح کرنا جائز ہے۔ اس سلسلہ میں ایک روایت بھی پیش کی جاتی ہے، اس کی اسنادی حیثیت کیسی ہے، قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت کریں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کتب احادیث میں مروی جن روایات میں عقیقہ کا ذکر آیا ہے ، ان میں صرف بکری یا دنبہ ذبح کرنے کا بیان ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’ لڑکے کی طرف سے دو مساوی بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری بطور عقیقہ ذبح کی جائے۔ ‘‘[1]
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما عقیقہ کے سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی طرف سے دو دو دنبے ذبح کئے۔ [2]
ان روایات کا تقاضا ہے کہ عقیقہ میں چھوٹے جانور ذبح کئے جائیں،ا گرچہ علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے: ’’ جمہور گائے اور بکری کو عقیقہ کےلئے کافی قرار دیتےہیں۔‘‘[3]
لیکن ہمارے رجحان کے مطابق جمہور کا مذکورہ موقف محل نظر ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام سے عقیقہ میں بڑا جانور ذبح کرنا ثابت نہیں بلکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس سلسلہ میں شدید نفرت کا اظہار مروی ہے۔ چنانچہ ابن ابی ملیکہ کہتےہیں کہ حضرت عبد الرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کے ہاں جب بچہ پیدا ہوا تو انہوں نے عقیقہ میں اونٹ ذبح کیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پا س اس بات کا تذکرہ کیا گیا تو آپ نے بایں الفاظ 22 اپنے جذبات کا اظہار کیا: ’’ معاذ اللہ ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی تو یہ ہے کہ عقیقہ میں دو مساوی بکریاں ذبح کی جائیں۔‘‘[4]
لہٰذا عقیقہ میں گائے بھینس یا اونٹ ذبح کرنے سے گریز کیا جائے۔ اس سلسلہ میں جو روایت پیش کی جاتی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں: ’’ بچے کی طرف سے اونٹ ، گائے اور بکری سے عقیقہ کیا جا سکتا ہے۔[5]
محدثین کے ہاں یہ روایت صحیح نہیں کیونکہ اس میں سعد بن یسع راوی کذاب ہے، چنانچہ علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ اس روایت کو بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں : اس کی سند میں سعد بن یسع راوی کذاب ہے۔ [6]
لہٰذا عقیقہ میں بکری، بھیڑ اور دنبہ ذبح کیا جائے کیونکہ احادیث میں ان جانوروں کو ذبح کرنے کا ذکر ملتا ہے اور گائے، بھینس یا اونٹ کو بطور عقیقہ ذبح کرنے سے اجتناب کیا جائے۔ ہاں اگر کسی کے دوست و احباب او دیگر رشتہ دار زیادہ ہیں اور عقیقہ کے جانور دعوت طعام کے لئے کافی نہیں تو وہ عقیقہ کے جانور کے ساتھ اضافی طور پر دوسرے جانور ذبح کر کے دعوت کا اہتمام کر سکتا ہے لیکن اضافی جانور بطور عقیقہ نہ ذبح کئے جائیں۔ ( واللہ اعلم)
[1] سنن أبي داؤد : ۲۸۳۴۔
[2] سنن النسائي ، العقیقة : ۴۲۲۴۔
[3] نیل الأوطار ص ۵۰۶ج۳۔
[4] سنن البیھقي ص ۳۰۱ ج۹۔
[5] طبراني.... ص ۸۴ج۱۔
[6] مجمع الزوائد ص ۵۸ ج۴۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب