السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں کئی سال سے اپنی والدہ مرحومہ کی طرف سے قربانی کرتا آ رہا ہوں ، اب مجھے چند اہل علم نے بتایاہے کہ میت کی طرف سے مستقل قربانی کرنے کا ثبوت قرآن و حدیث سے نہیں ملتا ، اس سلسلہ میں میری راہنمائی فرمائیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم جو کام بطور عبادت کرتے ہیں ، ان کا قرآن و حدیث سے ثابت ہونا ضروری ہے، اگر وہ کام قرآن و سنت سے ثابت نہیں تو ان کے بجالانے سے ثواب نہیں ملے گا۔ میت کی طرف سے مستقل قربانی کے متعلق عام طور پر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث پیش کی جاتی ہے، چنانچہ حضرت حنش بیان کرتے ہیں:
’’ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ قربانی کے موقع پر د ومینڈھے ذبح کرتے تھے، میں نے انہیں پوچھا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت کی تھی کہ میں ان کی طرف سے قربانی کرتا رہوں، اس لئے میں آپ کی طرف سے قربانی کرتاہوں۔‘‘[1]
لیکن یہ روایت دو وجہ سے قابل حجت نہیں :
1 اس کی سند میں شریک بن عبد اللہ القاضی راوی مدلس ضعیف ہے۔
2 ابو الحسناء نامی ایک راوی مجہول ہے۔
اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت تھی جسے حضرت علی رضی اللہ عنہ پورا کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے اس قسم کا کوئی عمل منقول نہیں ۔ اس سلسلہ میں ایک اور روایت بھی بیان کی جاتی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس ایک مینڈھا لایا گیا ، انہوں نے اسے ذبح کرتے وقت کہا: ’’ اللہ کے نام سے ، اے اللہ ! تیری توفیق سے اور تیرے لئے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے تیرے لئے ہے پھر اسے صدقہ کر دینے کا حکم دیا۔ اس کے بعد ایک دوسرا مینڈھا لایا گیا جسے انہوں نے ذبح کرتے وقت یہ کلمات کہے: اللہ کے نام کے ساتھ اے اللہ! یہ تیری توفیق سے ہے اور یہ تیرے لئے ہے، یہ قربانی علی کی طرف سے تیرے لئے ہے۔[2]
لیکن یہ روایت بھی عاصم بن شریب نامی راوی کے مجہول ہونے کی وجہ سے قابل حجت نہیں۔ حضرت عبد الرحمٰن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ شارح ترمذی فرماتے ہیں: ’’ میت کی طرف سے مستقل قربانی کرنے کے متعلق مجھے ایک بھی صحیح حدیث نہیں مل سکی۔ اس سلسلہ میں مروی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حدیث ضعیف ہے۔ ‘‘[3]
اس لئے ہمارے رجحان کے مطابق میت کی طرف سے مستقل طور پر قربانی کرنا صحیح حدیث سے ثابت نہیں ۔ ( واللہ اعلم)
[1] سنن أبي داؤد ، الضحایا: ۲۷۹۰۔
[2] سنن البیھقي ص ۲۸۷ج۹۔
[3] تحفة الاحوذي ص ۶۰ ج۵۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب