السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر کسی شادی شدہ عورت کا خاوند گم ہو جائے تو اسے کتنا عرصہ انتظار کرنا ہو گا، قرآن و حدیث کے مطابق وہ کتنی دیر تک عقد ثانی نہیں کر سکتی؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
گم شدہ خاوند کی بیوی کے متعلق ایک حدیث بیان کی جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ لا پتہ شوہر کی بیوی اس وقت تک اس کی بیوی ہی رہے گی جب تک گم شدہ آدمی کے متعلق کوئی واضح اطلاع نہ موصول ہو جائے۔ ‘‘[1]
لیکن یہ روایت ناقابل حجت اور بے کار ہے کیونکہ اس کی سند میں محمد بن شرحبیل صمدانی نامی ایک راوی ہے جسے محدثین نے متروک قرار دیا ہے نیز وہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے منکر اور باطل روایات کرنے میں مشہور ہے۔ اس کے علاوہ آگے بیان کرنے والا اس کا شاگرد ’’ سوار بن مصعب ‘‘بھی اسی قسم کا ہے البتہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس اس طرح کا ایک معاملہ آیا تو انہوں نے فرمایا: ’’ لاپتہ شوہر کی بیوی چار سال تک انتظار کرے پھر شوہر کے فوت ہونے کی عدت چار ماہ دس دن گزارے، اس کے بعد اگر چاہے تو شادی کر سکتی ہے۔‘‘ [2]
بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی اسی موقف کو اختیار کیا تھا اور اس کے مطابق فیصلہ دیا تھا۔[3]
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بھی یہی موقف ہے۔ [4]
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا رجحان ایک سال تک انتظار کرنے کی طرف معلوم ہوتا ہے، چنانچہ انہوں نے اپنی صحیح میں ایسے شخص کے متعلق عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’ گم شدہ خاوند کی بیوی اور اس کے مال و متاع کا حکم ‘‘[5]
لیکن آپ نے واضح طور پر دو ٹوک الفاظ میں کوئی فیصلہ نہیں کیا البتہ پیش کردہ آثار و احادیث سے آپ کا رجحان معلوم کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ آپ نے حضرت سعید بن مسیب کا ایک فتویٰ نقل کیا ہے کہ جب کوئی سپاہی میدان جنگ میں گم ہو جائے تو اس کی بیوی ایک سال تک انتظار کرے ، نیز آپ نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے متعلق بیان کیا ہے کہ انہوں نے کسی سے ادھار لونڈی خریدی پھر لونڈی کا مالک گم ہو گیا تو انہوں نے ایک سال تک اس کا انتظار کیا ۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا رجحان بیان کرنے کے لئے حدیث لقطہ بیان کی ہے کہ اگر کسی کو گرا پڑا سامان ملے تو وہ اس کا سال بر اعلان کرے۔[6]
ان آثار سے معلوم ہوتا ہےکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک گم شدہ خاوند کی بیوی کے لئے انتظار کا وقت ایک سال مقرر کیا جاسکتا ہے موجودہ احوال و ظروف اور ذرائع مواصلات کے پیش نظر یہ موقف انتہائی قرین قیاس ہے۔ ہمارے نزدیک بھی ایک سال کا انتظار کافی معلوم ہوتا ہے بصورت دیگر قدیم فتویٰ چار سال والا تو اپنی جگہ جمہور علمائے اسلام اور مفتیانِ کرام کے ہاں رائج چلا آ رہا ہے لیکن عقد نکاح کوئی کچا دھاگہ نہیں کہ جسے آسانی سے توڑ دیا جائے اور یہ ایک ایسا حق ہے جو خاوند کے لئے لازم ہو چکاہے ، اس بناء پر اس عقد نکاح کو کھولنے کا مجاز عورت کا خاوند ہے جو گم ہو چکا ہے۔ اب دفع مضرت کے لئے عدالت ، خاوند کے قائم مقام ہو گی اور اس نکاح کو فسخ قرار دینے کی مجاز ہو گی ، جیسا کہ خلع وغیرہ میں ہوتا ہے۔ اس لئے ہمارے نزدیک گم شدہ خاوند سے خلاصی کے لئے یہ طریقہ اختیار کیا جائے کہ عورت فیملی کورٹ کی طرف رجوع کرے ، رجوع سے قبل جتنی مدت گزر چکی ہو گی اس کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ہمارے ہان بعض عورتیں مدت دراز تک انتظار کرنے کے بعد عدالت کے نوٹس میں معاملہ لائے بغیر یا اس کا فیصلہ حاصل کرنے سے قبل محض فتویٰ لے کر آگے نکاح کر لیتی ہیں، ان کا یہ اقدام نکاح انتہائی محل نظر ہے۔امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ اگر کوئی عورت عدالت کے نوٹس میں لائے بغیر اپنے مفقود شوہر کا چار سال تک انتظار کرے تو کیا اس مدت کا اعتبار کیا جائے گا تو آپ نے جواب دیا: ’’ اگر وہ اس طرح بیس سال بھی گزارے تو بھی اس کا کوئی اعتبار نہیں ہو گا۔‘‘[7]
اس بنا پر ضروری ہے کہ جس عورت کا خاوند لاپتہ ہو جائے تو وہ فوری طور پر عدالت کی طرف رجوع کرے پھر اگر عدالت اس نتیجہ پر پہنچے کہ واقعی اس کا خاوند گم شدہ ہے تو وہ اسے ایک سال تک انتظار کرنے کا حکم دے گی۔ اگر اس مدت تک اس کا شوہر نہ آئے تو ایک سال کے اختتام پر عدالت فسخ نکاح کی ڈگری جاری کرنے کی مجاز ہو گی۔ عدالت کے فیصلے کے بعد عورت اپنے شوہر کو مردہ تصور کر کے عدتِ وفات یعنی چار ماہ دس دن گزارے گی ۔ اس کےبعد نکاح ثانی کرنے کی مجاز ہو گی۔ اگر عدالت بلاوجہ معاملہ کو طول دے اور عورت مجبور ہو کر صبر نہ کر سکے تو مسلمانوں کی ایک جماعت تحقیق کر کے اس کے گم شدہ خاوند کے متعلق فیصلہ کرے، ایسے حالات میں پنچائتی فیصلہ بھی عدالت مجاز کا فیصلہ ہی تصور ہو گا۔ ( واللہ اعلم )
[1] دارقطنی ص ۳۱۲ ج۳۔
[2] بیہقی ص ۴۴۵ ج ۷۔
[3] مصنف عبد الرزاق ص ۸۵ ج۷۔
[4] بیہقی ص ۴۴۵ ج۷۔
[5] صحیح بخاری، الطلاق باب نمبر : ۲۲۔
[6] صحیح بخاری ، الطلاق: ۵۲۹۲۔
[7] المدونة الکبریٰ ص۹۳ ص ۲۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب