السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قرآن مجید میں ہے کہ ’’ اگر تمہیں ڈر ہو کہ انصاف نہیں کر سکو گے تو پھر ایک ہی سے نکاح کرو۔‘‘ (النساء:129)
دوسرے مقام پر فرمایا: ’’ تم اپنی بیویوں کے درمیان انصاف نہیں کر سکو گے خواہ تم اس کی کتنی ہی خواہشیں کرو۔ ‘‘(النساء:4)
ان دونوں آیات کو ملانے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ صر ف ایک عورت سے ہی شادی ہو سکتی ہے کیونکہ متعدد بیویوں کی موجودگی میں عدل کی شرط کو پورا کرنا ناممکن ہے، وضاحت فرمائیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگرچہ پہلی آیت میں ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی کرنے کے لئے عدل و انصاف کو شرط قرار دیا گیا ہے جبکہ دوسری آیت میں وضاحت ہے کہ قیام عدل ناممکن ہے لیکن ان دونوں آیات میں نہ تو کوئی تعارض ہے اور نہ ہی ناسخ و منسوخ کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے بلکہ پہلی آیت میں عدل سے مرادوہ عدل ہے جو انسان کے اختیار میں ہو جیسا کہ باری مقرر کرنا اور نان نفقہ کا اہتمام کرنا ، لیکن ازدواجی زندگی میں کچھ ایسی اشیا بھی ہوتی ہیں جو انسانی اختیار سے باہر ہیں مثلاً محبت اور جنسی تعلقات وغیرہ۔ ان میں کمی بیشی انسان کے اختیار میں نہیں ہے اور جس آیت میں انصاف نہ کر سکنے کا بیان ہے اس سے مراد تعلقات کی یہ آخری قسم ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات کے درمیان پورا پورا عدل کرتے تھے ، باری کے متعلق یہ وضاحت قرآن میں ہے کہ وہ آپ پر فرض نہ تھی، اس کے باوجود آپ اس کا پورا پورا اہتمام فرماتے تھے، نان نفقہ کے متعلق بھی عدل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑتے تھے لیکن دلی محبت اور قلبی تعلقات ، آپ کے بس میں نہ تھے اس لئے آپ بایں الفاظ دعا فرماتے : ’’ اے اللہ ! جو امور میرے بس میں ہیں ، ان کے متعلق میری تقسیم یہ ہے اور جن امور کا میں مالک نہیں ہوں بلکہ وہ تیرے اختیار میں ہیں تو ان کے متعلق مجھے ملامت نہ کرنا۔ ‘‘[1]
بہر حال باری اور نان و نفقہ میں عدل و انصاف کی شرط کے ساتھ ایک سے زیادہ چار تک بیویاں رکھنے کی اجازت ہے اور جسآیت میں عدل و انصاف نہ کرنے کا ذکر ہے اس سے مراد قلبی تعلقات اور دلی محبت ہے، اس میں عدل و انصاف کرنا انسان کے اختیار میں نہیں۔ ( واللہ اعلم)
[1] جامع ترمذی ، النکاح : ۱۱۴۰۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب