السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں شادی شدہ ہوں اور میرے بچے بھی ہیں، میں دوسری شادی کرنے کا خواہش مند ہوں لیکن میری بیوی کہتی ہے کہ اگر تم دوسری شادی کرنا چاہتے ہو تو مجھے طلاق دے دو، اس سلسلہ میں آپ کی راہنمائی درکار ہے کہ میں حالات سے مصالحت کر لوں یا اپنی خواہش کے پیش نظر بیوی کو طلاق دے دوں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ( ترجمہ) ’’ اور عورتوں میں سے جوا چھی تمہیں پسند ہوں، ان سے نکاح کر لو، دو دو، تین تین، چار چار لیکن اگر تمہیں عدل و انصاف نہ کرنے کا اندیشہ ہو تو ایک ہی کافی ہے۔ [1]
اس آیت کریمہ سے ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کا جواز ملتا ہے لیکن اسے عدل و انصاف کرنے سے مشروط کیا گیا ہے۔ ہمارے نزدیک شادی کرنے کی شرائط حسب ذیل ہیں: 1 اسے صحیح معنوں میں شادی کرنے کی رغبت ہو، محض شوق پورا کرنا مقصود نہ ہو۔ 2 وہ شخص بدنی اور مالی طور پر دوسری شادی کرنے کی طاقت رکھتا ہو۔ 3 دونوں کے درمیان حتی المقدور عدل و انصاف کرنے کا بھر پور جذبہ ہو۔
اس سلسلہ میں معاشرتی طور پر یہ بھی ضروری ہے کہ وہ پہلی بیوی کو اعتماد میں لے۔ اگرچہ شرعی طور پر ایسا کرنا ضروری نہیں تاہم انجام و نتیجہ کے طور پر اسے چاہیے کہ پہلی بیوی سے مشورہ ضرور کر لے۔ دوسری شادی کا جذبہ رکھتے ہوئے یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ عورت کی طبیعت میں بہت زیادہ غیرت ہوتی ہے ، وہ یہ نہیں چاہتی کہ کوئی دوسری عورت خاوند کے ساتھ اس کی محبت میں شریک ہو۔ عورت میں اس طرح کی غیرت کا پایا جانا کوئی باعث ملامت چیز نہیں کیونکہ یہ غیرت امہات المومنین اور دیگر صحابیات میں بھی پائی جاتی تھی، لیکن یہ غیرت اس حد تک نہیں ہونی چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی جائز کر دہ اشیاء پر حرف گیری کرے اور اس پر اعتراض کرنے لگے بلکہ اسے چاہیے کہ اگر اس کا خاوند دوسری شادی کا ضرورت مند ہے اور یہ اس کی ضرورت پورا کرنے سے قاصر ہے تو وہ اس نیکی میں اس کا بھرپور تعاون کرے۔ امید ہے کہ اللہ کے ہاں اسے اس تعاون پر اجر و ثواب ملے ، لیکن اس کا خاوند سے اس بناء پر طلاق کا مطالبہ کرنا جائز نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ( ترجمہ)’’ جو کوئی عورت کسی ضرورت کے بغیر اپنے خاوند سے طلاق کا مطالبہ کرتی ہے تو اس پر جنت کی خوشبو بھی حرام ہے۔‘‘[2]
بیوی کو چاہیے کہ صدق دل سے حالات کا جائزہ لے، محض جذبات سے کام نہ لے، کیونکہ جذباتی باتوں میں سے اسے نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اگر وہ یہ سمجھتی ہے کہ وہ دوسری بیوی کی موجودگی میں اس کے ساتھ زندگی نہیں بسر کر سکتی تو اسے شریعت کی طرف سے خلع لینے کی اجازت ہے لیکن اگر وہ ایسے حالات میں خاوند کے ساتھ گزارہ کر سکتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اس تنگی اور تکلیف پر صبر کرے۔ خاوند کو بھی چاہیے کہ وہ زمینی حقائق پر نظر رکھتے ہوئے خواہ مخواہ اس ’’ پنگے‘‘ میں نہ پڑے بلکہ وہ حسن معاشرت کے پیش نظر اپنی ضرورت پر نظر ثانی کر لے، کیونکہ یہ عورتوں کی فطرت ہے کہ انہیں ایسے معاملات سے بہت زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔ اس معاملہ میں استخارہ کرے اور اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتا رہے کیونکہ وہی مشکلات کو حل کر سکتا ہے۔ ( واللہ اعلم)
[1] النساء : ۳۔
[2] ابو داود ، الطلاق : ۲۲۲۶۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب