السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مجھے کسی رشتہ دار کی طرف سے عقد ثانی کی پیشکش ہوئی ، لیکن انہوں نے شرط لگائی کہ پہلی بیوی کو طلاق دی جائے، چونکہ مجھے پہلی بیوی سے محبت تھی اور مذکورہ پیشکش بھی مسترد نہیں کرنا چاہتا تھا، اس لئے میں نے یہ راستہ اختیار کیا کہ ایک خالی لفافہ پیشکش کنندہ کے حوالے کر دیا اور کہہ دیا کہ یہ ہے طلاق نامہ ، کیا ایسا کرنے سے طلاق ہو جاتی ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کسی حقیقی ضرورت کے پیش نظر پہلی بیوی کی موجودگی میں دوسری شادی کرنا آدمی کا حق ہے لیکن ہمارے ہاں اس حق کا بہت غلط استعمال ہوتا ہے۔ دوسری شادی کی پیشکش کرنے والے حضرات اس سلسلہ میں بہت گھناؤنا کردار ادا کرتے ہیں، بلکہ خاوند کا گھر برباد کرنے میں ان کا نمایاں حصہ ہوتا ہے۔ ہمارے علم میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ پہلی بیوی کے علم میں لائے بغیر چوری چوری ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو تا ہے پھر چوری چوری نکاح کر لیا جاتا ہے حالانکہ پہلی بیوی صاحب اولاد ہوتی ہے اور خاوند کے حقوق ادا کرنے میں بھی کوتاہی کا ارتکاب نہیں کرتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود دوسری شادی کر کے بیوی کو صلح کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے اگر وہ صلح نہیں کرتی تو اسے طلاق کی دھمکی دی جاتی ہے پھر چار و ناچار اسے صلح کر کے اس آگ میں جلنا پڑتا ہے ، اس تکلیف دہ صورت حال سے کئی خواتین ہمیں آگاہ کرتی ہیں اور اس پر لکھنے کے متعلق کہتی ہیں ۔ ہمارے رجحان کے مطابق ایسے حالات میں جب نکاح کی کوئی حقیقی ضرورت نہ ہو پھر چور دروازوں سے گزر کر نکاح کرنے سے شرعاً نکاح نہیں ہوتا ہے۔ اس پر مستزادیہ کہ پیشکش کرنے والے ایسی شرائط عائد کرتے ہیں جو شرعاً ناجائز اور حرام ہیں، جیسا کہ صورت مسؤلہ میں پہلی بیوی کو طلاق دینے کی شرط لگائی گئی ہے۔ چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’ ایسی شرائط کا بیان جو نکاح کے وقت جائز نہیں ہیں۔ ‘‘[1]
پھر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول پیش کیا ہے کہ کوئی عورت نکاح کے وقت پہلی بیوی کو طلاق دینے کی شرط نہ لگائے، اس کے بعد حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث پیش کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ کسی عورت کے لئے حلال نہیں کہ وہ نکاح کے لئے دوسری بیوی کو طلاق دینے کا مطالبہ کرے تاکہ اس کے برتن میں جو کچھ ہے اسے اُنڈیل دے، اسے تو وہی کچھ ملے گا جو اس کے مقدر میں ہے۔‘‘ [2]
اس لئے جو نکاح اس طرح کی ناجائز شرائط منوانے کے بعد کیا جائے گا وہ جائز نہیں ہے۔ لہٰذا نکاح کی پیشکش کرنے والوں کو غور کرنا چاہیے کہ وہ کہیں ہلاکت و تباہی کا راستہ تو اختیار نہیں کر رہے۔ سائل نے اس نکاح کی خاطر جو حیلہ اختیار کیا ہے وہ ’’ عذر گناہ بدتر از گناہ‘‘ کے زمرے میں آتا ہے۔ اسے پہلے بیوی سے محبت بھی ہے، اسے بھی رکھنا چاہتا ہے اور تازہ شکار کو بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہتا ۔ اس نے خالی لفاطہ پیشکش کرنے والوں کے حوالے کر کے کہا یہ لو پہلی بیوی کا طلاق نامہ، پھر پوچھتا ہے کہ آیا ایسا کرنے سے طلاق تو واقع نہیں ہو جاتی۔ اس سلسلہ میں ہماری گذارش یہ ہے کہ طلاق کا معاملہ ایسا نازک ہے کہ ہنسی مذاق میں طلاق دینے سے بھی طلاق ہو جاتی ہے۔ صورتِ مسؤلہ میں سائل کی طلاق ہنسی مذاق کی نہیں بلکہ انتہائی سنجیدگی سے اپنا کام نکالنے کے لئے ’’طلاق نامہ‘‘ نکاح کی پیشکش کرنے والوں کے حوالے کرنا ہے۔ اگرچہ لفافہ میں کچھ نہیں تھا لیکن طلاق لینے والے اسے طلاق ہی سمجھتے تھے اور خاوند نے بھی یہی باور کرایا کہ یہ طلاق نامہ ہے، لہٰذا اس طرح طلاق بھی ہو جاتی ہے۔ اگر وہ پہلی بیوی کو رکھنا چاہتا ہے تو اس سے رجوع کر لے لیکن رجوع کرنے کے باجود ایک طلاق شمار ہو جائے گی، یعنی اسے نکاح کے بعد جو طلاق کے متعلق تین اختیارات حاصل تھے اس نے اپنا ایک اختیار استعمال کر لیا ہے، اب اس کے بعد اگر دوسرا اختیار استعمال کرتا ہے تو رجوع کا حق اسے حاصل رہے گا جبکہ آخری اختیار استعمال کرنے کے بعد رجوع کا حق بھی ختم ہو جائے گا۔ اس تفصیل سے ہم قارئین کرام کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ نکاح اور طلاق دونوں بہت سنجیدہ اور نازک معاملے ہیں ، اسے کھیل تماشے کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
[1] صحیح بخاری ، النکاح باب نمبر : ۵۴۔
[2] صحیح بخاری ، النکاح : ۵۱۵۲۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب