سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(359) دوسری شادی کے لئے پہلی بیوی کی رضامندی

  • 20620
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1447

سوال

(359) دوسری شادی کے لئے پہلی بیوی کی رضامندی

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا دوسری شادی کرنے کے لئے پہلی بیوی سے رضا مندی حاصل کرنا ضروری ہے نیز بتائیں کہ ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی کیا شرائط ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اللہ تعالیٰ نے خاوند کو یہ حق دیا ہے کہ وہ حسب استطاعت چار شادیاں کر سکتا ہے اور اسے بیک وقت چار بیویاں رکھنے کی اجازت ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’ اور اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ یتیم لڑکیوں کے متعلق ان سے انصاف نہیں کر سکو گے تو دوسری عورتوں سے جو تمہیں پسند آئیں دو، دو، تین تین اور چار ، چار تک نکاح کر لو۔‘‘[1]

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے چار بیویاں رکھنے کی اجازت دی ہے اور اس میں پہلی بیوی کی رضا مندی کا کوئی ذکر نہیں، اگرچہ ہمارے عائلی قوانین میں یہ شرط ہے کہ دوسری شادی کے لئے پہلی بیوی سے تحریری اجازت نامہ حاصل کرے لیکن یہ شرط اسلام میں نہیں ہے۔ البتہ ہم یہ ضرور کہتے ہیں کہ معاشرتی طور پر پہلی بیوی کو اگر اعتماد میں لے لیا جائے تو آئندہ زندگی اجیرن نہیں ہو گی، لہٰذا بہتر یہ ہے کہ دوسری شادی کرنے سے قبل پہلی بیوی کو اعتماد میں لے لیا جائے۔ دوسری شادی کرنے کے لئے بنیادی طور پر دو ہی شرائط ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے:

عدل و انصاف:  خاوند کو چاہیے کہ اگر وہ دوسری شادی کرنا چاہتا ہے تو وہ بیویوں کے درمیان عدل و انصاف کرے بصورت دیگر معاملہ بہت سنگین ہو گا، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ تم ان کے درمیان عدل نہیں کر سکو گے تو پھر ایک ہی کافی ہے۔‘‘[2]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: جس خاوند کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان میں سے ایک طرف میلان رکھے تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو فالج زدہ ہو گا۔[3]

اس سلسلہ میں جو عدل مطلوب ہے وہ نان و نفقہ ، لباس اور شب باشی وغیرہ ہے یعنی ان مادی امور میں عدل کرے جو اس کے بس میں ہیں اور جن پر اس کی قدرت ہے لیکن محبت اور جنسی تعلقات کے متعلق باہمی عدل و انصاف قطعاً مراد نہیں ہے ۔ اس کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ اور تم ہر گز عورتوں کے درمیان عدل نہیں کر سکتے اگرچہ تم اس کی کوشش بھی کرو۔ ‘‘[4]

خرچ کی طاقت:  دوسری شادی کرنے کے لئے دوسری بنیادی شرط یہ ہے کہ انسان اپنے اندر مالی استطاعت پاتا ہو، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’ اور ان لوگوں کو پاکدامن رہنا چاہیے جو اپنا نکاح کرنے کی طاقت نہیں رکھتے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے غنی کر دے۔‘‘ [5]

اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں حکم دیا ہے کہ جو بھی نکاح کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو اور اسے کسی قسم کی رکاوٹ کا سامنا ہو تو وہ پاکبازی اختیار کرے ، نکاح کی رکاوٹ بننے والی اشیا میں مالی استطاعت سر فہرست ہے۔ اس آیت کا تقاضا ہے کہ جس انسان کے پاس شادی کے بعد بیوی کے اخراجات برداشت کرنے کی طاقت نہیں ہے وہ پاکبازی کے لئے کوئی اور طریقہ اختیار کر لے ، دوسری شادی کا خیال ذہن سے نکال دے۔ ( واللہ اعلم)


[1] النساء : ۳۔

[2] النساء : ۳۔

[3] دارمی ،ص۱۴۳،ج۲۔

[4] النساء : ۱۲۹۔

[5] سورة النور : ۳۳۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:321

محدث فتویٰ

تبصرے