السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک لڑکی کا نکاح ایام حیض میں ہوا ، جبکہ گھر والوں کو اس کا علم بھی تھا، کیا شرعی طور پر اس حالت میں نکاح ہو جاتا ہے، کتاب و سنت کی روشنی میں فتویٰ دیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نکاح کی چار شرائط ہیں، لڑکے لڑکی کی رضا مندی ، ولی کی اجازت ، گواہوں کی موجودگی اور حق مہر وغیرہ۔ جس نکاح میں یہ چار شرائط پائی جائیں گی وہ نکاح صحیح ہے، حالت حیض میں نکاح بھی صحیح ہےالبتہ بعض فقہا ء نے حالت حیض میں لڑکی کی رخصتی کو مکروہ قرار دیا ہے تاکہ خاوند اس سے مقاربت کر کے گنہگار نہ ہو، نیز کتاب و سنت میں اس کے حرام ہونے کے متعلق کوئی دلیل نہیں ہے اور نہ ہی اس کی حرمت پر اجماع امت ملتا ہے، قیاس صحیح سے بھی اس کی ممانعت ثابت نہیں کی جا سکتی، ہمیں کسی فقیہ کا علم نہیں ہے جس نے اس قسم کے نکاح کو حرام کہا ہو پھر عقود و معاملات میں اصل جواز و اباحت ہے اِلا یہ کہ اس کی حرمت پر کوئی واضح دلیل ہو، حالت حیض میں نکاح کی حرمت پر کوئی دلیل ثابت نہیں ہے۔ بناء بریں اس حالت میں کیا ہوا نکاح جائز اور صحیح ہے۔ البتہ خاوند کو چاہیے کہ بیوی کے پاک ہونے کا انتظار کرے، اس کے پاس نہ جائے، جب وہ حالت حیض سے پاک ہو جائے اور غسل کر لے تو پھر خاوند اس کے پاس جا سکتا ہے۔ ( واللہ اعلم)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب