سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(355) بدخواہ ولی کی حیثیت

  • 20616
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 690

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے والد فوت ہو چکے ہیں، اب میری والدہ اور ایک سوتیلا بھائی زندہ ہے لیکن یہ بھائی وٹے سٹے کی بنیاد پر میرا کہیں نکاح کرنا چاہتا ہے، جبکہ میں وہاں نکاح پر راضی نہیں ہوں، ایسے حالات میں میرے لئے شریعت کا کیا حکم ہے؟ مجھے اس بات کا علم ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

امت کے اکثر اہل علم کا یہ موقف ہے کہ عورت کنواری ہو یا شوہر دیدہ، اس کا نکاح ولی کے بغیر نہیں ہوتا، قرآن کریم کے انداز بیان سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرۃ کی متعدد آیات میں عورت کے سرپرست کو عقد نکاح کے متعلق مخاطب کیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر نکاح کا معاملہ ولی کے بجائے عورت کے ہاتھ میں ہوتا تو اس کے ولی کو مخاطب کرنے کی چنداں ضرورت ہی نہ تھی، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان آیات کے پیش نظر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے:

’’ جو شخص کہتا ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔‘‘[1]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ نکاح میں ولی کا ہونا شرط ہے ، چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا ۔‘‘[2]

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جس عورت نے اپنے سر پرست کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اس کا نکاح باطل ہے، آپ نے یہ کلمات تین مرتبہ دہرائے۔[3]

شریعت نے نکاح کے لئے یہ شرط اس لئے عائد کی ہے کہ ولی ، عورت کے نفع و نقصان کو زیادہ سمجھتا ہے اور وہ اس کی خیر خواہی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا ، لیکن اگر ولی اپنی زیر سرپرست کا خیرخواہ نہ ہو بلکہ اسے اپنا مفاد پیش نظر ہو جیسا کہ صورت مسؤلہ میں ہے تو ایسے حالات میں وہ ولایت سے خود بخود محروم ہو جاتا ہے پھر ولایت کسی دوسرے قریبی رشتہ دار کی طرف منتقل ہو جاتی ہے، اگر کسی کا کوئی دوسرا سر پرست نہ ہو تو پھر حاکم وقت کی طرف ولایت منتقل ہو جائے گی جیسا کہ حدیث میں ہے: ’’ اگر اولیاء کا باہمی اختلاف ہو جائے تو پھر جس کا کوئی ولی نہ ہو اس کا ولی حکمران ہے۔‘‘[4]

اگر حکمران سے بھی عدل و انصاف کی توقع نہ ہو جیسا کہ ہمارے ہاں عدالتوں میں ہوتا ہے تو پھر گاؤں یا شہر کا کوئی بھی شخص ولی بن سکتا ہے جسے اختیارات حاصل ہوں مثلاً قافلے کا امیر ، گاؤں کا نمبردار اور شہر کا چیئر مین وغیرہ ۔ چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ’’ اگر نکاح کے لئے ولی نہ ہو تو ایسے حالات میں ولایت نکاح اس شخص کی طرف منتقل ہو گی جسے نکاح کے علاوہ دوسرے معاملات میں کچھ اختیارات حاصل ہیں جیسے کہ گاؤں کا نمبر دار یا قافلے کا امیر وغیرہ ۔[5]

صورت مسؤلہ میں ہم سائلہ کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ اگر حالات واقعی اسی طرح ہیں جیسا کہ سوال میں ذکر کئے گئے ہیں تو اپنے گاؤں یا شہر کے سرکردہ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی کی سرپرستی میں اپنا نکاح کر لے، امید ہے کہ اللہ کے ہاں اسے کوئی مواخذہ نہیں ہو گا۔ ( واللہ اعلم)


[1] صحیح بخاری ، النکاح باب : ۳۷۔

[2] ابو داود، النکاح: ۲۰۸۵۔

[3] مسند امام احمد ص ۴۷ ج ۶۔

[4] سنن الترمذی، النکاح: ۱۱۰۲۔

[5] الاختیارات ص ۳۵۰۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:318

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ