سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(353) غیر مدخولہ پر عدتِ وفات ضروری ہے؟

  • 20614
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-12
  • مشاہدات : 1656

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہماری بچی کا نکاح ہوا تھا ، ابھی رخصتی عمل میں نہیں آئی تھی کہ خاوند کسی حادثہ میں وفات پا گیا، ایسے حالات میں کیا بچی پر عدت وفات پوری کرنا ضروری ہے، کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 عقد نکاح کے بعد عورت ، بیوی بن جاتی ہے ، اس پر وہی احکام لاگو ہوتے ہیں جو نکاح کے بعد ایک بیوی کے لئے ہوتے ہیں، نکاح کے بعد جس عورت کا خاوند فوت ہو جائے اس کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’تم میں سے جو لوگ فوت ہو جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ عورتیں اپنے آپ کو چار ماہ دس دن عدت میں رکھیں۔‘‘[1]

اس حکم میں وہ تمام عورتیں شامل ہیں جو عقد نکاح کے بعد بیویاں بن چکی ہیں، خواہ وہ ایسی بوڑھی عورت ہو جسے اب مردوں کی کوئی حاجت نہیں ، اسی طرح وہ بچی بھی اس حکم میں شامل ہے جو ابھی سن بلوغ کو نہیں پہنچی اور وہ لڑکی جو نکاح کے بعد ابھی اپنے خاوند کے پاس نہیں گئی ، الغرض یہ تمام عورتیں اس آیت کے عموم میں داخل ہیں ، صرف وہ عورت اس سے مستثنیٰ ہے جو خاوند کی وفات کے وقت حمل سے تھی، اس کی عدت وضع حمل ہے خواہ دوسرے دن بچہ پیدا ہو جائے یا آٹھ ماہ بعد وہ بچے کو جنم دے ، اس کی عدت وضع حمل ہے۔ صورت مسؤلہ میں عقد نکاح ہو چکا ہے لیکن رخصتی عمل میں نہیں آئی اور اس کا خاوند کسی حادثہ کی وجہ سے فوت ہو گیا ہے تو اس حالت میں بھی بچی کو عدت وفات گزارنا ضروری ہے جو چار ماہ دس دن ہے، ہاں اگر خاوند اس حالت میں طلاق دے دے تو اس کے ذمے عدت طلاق ضروری نہیں ہے لیکن اس پر عدت وفات کو قیاس نہیں کیا جا سکتا ۔ بہر حال صورت مسؤلہ میں بچی پر عدت وفات گزارنا ضروری ہے۔ ( واللہ اعلم)


[1] البقرة: ۲۳۴۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:317

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ