سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(336) عدالتی نکاح کی شرعی حیثیت

  • 20597
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 825

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے معاشرہ کا یہ بہت نازک مسئلہ ہے کہ لڑکی اور لڑکا آپس میں نکاح کے لئے رضا مند ہوتے ہیں لیکن والدین اس نکاح کے لئے آمادہ نہیں ہوتے، پھر وہ لڑکی گھر سے بھاگ کر عدالتی نکاح کر لیتی ہے، اس طرح اولاد بھی پیدا ہو جاتی ہے، اس قسم کی شادی کو کس طرح صحیح کہا جا سکتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شریعت اسلامیہ میں جو لڑکی بھی گھر سے بھاگ کر اپنے سر پرست کی اجازت کے بغیر نکاح کرتی ہے وہ نکاح باطل ہے، خواہ اس قسم کے نکاح کو کتنی ہی مدت کیوں نہ گذر جائےاور اس نکاح کے نتیجہ میں خواہ بچے بھی پیدا ہو جائیں ، نکاح کے لئے ولی کی اجازت اور اس کی رضا مندی بنیادی شرط ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

 ’’ جب عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اس کا نکاح باطل ہے، آپ نے یہ کلمات تین مرتبہ دہرائے۔ [1]

بلکہ جو عورت اپنے سرپرست سے بالا بالا خود ہی نکاح کر لیتی ہے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدکار قرار دیا ہے، چنانچہ ارشاد نبوی ہے:

 ’’ کوئی عورت کسی دوسری عورت کا ( ولی بن کر ) نکاح نہ کرے اور نہ ہی خود اپنا نکاح کرے بلاشبہ وہ عورت زانیہ ہے جس نے اپنا نکاح خود کر لیا۔ [2]

اب عدالتی نکاح کو درست کرنے کی یہی ایک صورت ہے کہ ان کے درمیان علیحدگی کرا دی جائے ، جب اس پر کچھ وقت گزر جائے تو مشرقی روایات کے مطابق سرپرست کی رضا مندی اور اجازت کے ساتھ دوبارہ نکاح کیا جائے، کیونکہ شریعت پہلے نکاح کو درست تسلیم نہیں کرتی بلکہ اسے باطل قرار دیتی ہے ، بیوی خاوند کو چاہیے کہ وہ عدالتی نکاح کرنے پر اللہ کے حضور خلوص دل سے توبہ کریں ، اللہ تعالیٰ معاف کرنے والامہربان ہے۔ ( واللہ اعلم)


[1] ابو داود، النکاح: ۲۰۸۳۔

[2] ابن ماجہ ،النکاح : ۱۸۸۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:305

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ