السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
تقسیم وراثت کے وقت ایک بہن کو غریب اور کمزور سمجھتے ہوئے جائیداد سے محروم کرنا جائز ہے ؟قرآن و سنت کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
دور جاہلیت میں عورتوں کو میراث میں شامل کر نے کا دستور نہ تھا بلکہ عورت خود ترکہ شمار ہو تی تھی ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق حکم امتناعی جاری فرمایا کہ:
’’ اے ایمان والو !تمہارے لیے یہ جائز نہیں کہ تم زبر دستی عورتوں کے وارث بن جاؤ۔[1]
بلکہ عورتوں کا مرنے والے کی جائیداد سے حصہ مقرر فرمایا، ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’مردوں کے لیے اس مال سے حصہ ہے جو والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں، اسی طرح عورتوں کے لیے بھی اس مال سے حصہ ہے جو والدین اور قریبی رشتہ چھوڑ جائیں خواہ یہ ترکہ تھوڑا ہو یا زیادہ ، ہر ایک کا طے شدہ حصہ ہے ۔ ‘‘[2]
اس آیت سے درج ذیل احکام معلوم ہو تے ہیں:
1 ترکہ میں عورتوں کے لیے با قاعدہ حصہ ہے انہیں محروم نہیں کیا جا سکتا۔
2 ترکہ تھوڑا ہو یا زیادہ ، منقولہ ہو یا غیر منقولہ بہر حال وہ تقسیم ہو گا۔
3 قریبی رشتہ داروں کی موجودگی میں دور والے رشتہ دار محروم ہوں گے۔
بہر حال اسلام نے میت کی جائیداد میں عورتوں کو شریک کیا ہے ، صورت مسؤلہ بہت ہی تکلیف دہ ہے کہ باپ کی جائیداد سے ایک بیٹی کو صرف غریب اور کمزور ہو نے کی وجہ سے محروم کیا گیا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے جہاں ورثا کے حصے مقرر فرمائے ہیں وہاں آخر میں تنبیہ بھی کی ہے :
’’یہ اللہ کی حدود ہیں ، جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اللہ تعالیٰ اسے ایسے باغات میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں، اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے ، یہ بہت بڑی کامیابی ہے اور جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نا فرمانی کرے گا اور اللہ کی حدود سے تجاوز کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے دوزخ میں داخل کریں گے، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، نیز اسے رسوا کن عذاب ہو گا۔ ‘‘[3]
بہن کو کمزور اور غریب خیال کر کے جائیداد سے محروم کرنا اللہ کی حدود سے تجاوز کرنا ہے، اس پر بہت سخت وعید ہے ، خطرہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لو گوں کو جنت سے محروم کر دیں۔
[1] النساء :۱۹۔
[2] النسا ء :۷۔
[3] النساء:۱۳۔۱۴۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب