سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(328) مسئلہ وراثت

  • 20589
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 647

سوال

(328) مسئلہ وراثت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک آدمی سکول ٹیچر ہے ، اس کی نو ایکڑ زرعی اراضی بھی ہے، وہ چاہتا ہے کہ اپنی زمین اپنے بھتیجے کے نام کر دے ۔ لیکن وہ اس معاملہ میں اللہ تعالیٰ سے بھی ڈرتا ہے کیونکہ وہ اکثر بیمار رہتا ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ اس سے کوئی ایسا کام سر زد ہو جائے جس کی وجہ سے آخرت میں مواخذہ ہو، قرآن و حدیث کے مطابق اسے کیا کرنا چاہیے ؟ واضح رہے کہ اس کی والدہ، دو بھائی اور ایک بہن بقید حیات ہیں ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 شرعی ورثا کو محروم کر نے کی نیت سے کسی غیر وارث کو کچھ دینا بہت سنگین جرم ہے۔ بلکہ آخرت میں جنت سے محرومی کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ضابطہ میراث بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ آخر میں فرمایا :

’’یہ حدیں اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی ہیں اور جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی فرمانبر داری کرے گا اسے اللہ تعالیٰ سدا بہار جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ، وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ اس کے بر عکس جو شخص اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نا فرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کر دہ حدوں سے تجاوز کرے گا وہ اسے جہنم میں ڈال دے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور یہ اس کے لیے انتہائی رسوا کن عذاب ہو گا۔‘‘ [1]

ان آیات کی روشنی میں کسی شخص کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنے شرعی ورثا کو محروم کر کے ایک غیر شرعی وارث کے نام اپنی جائیداد کر دے ، یہ ہمدردی نہیں بلکہ اس پر اور اپنے آپ پر زیادتی کرنا ہے۔ ہاں شرعی طور پر اسے یہ اجازت ہے کہ وہ اپنے بھتیجے کے نام ایک تہائی تک وصیت کر دے ۔ یعنی نو ایکڑ زرعی اراضی سے تین ایکڑ کی اس کے لیے وصیت کر دے جو مر نے کے بعد اسے مل جا ئے گی۔ اگر موت کے وقت یہی ورثا زندہ ہوں جن کا سوال میں ذکر ہے تو درج ذیل تفصیل کے مطابق اس کی جائیداد تقسیم کر دی جائے۔ والدہ کو چھٹا حصہ دیاجائے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اگر میت کے متعدد بہن بھائی ہوں تو ماں کو چھٹا حصہ دیا جائے۔ ‘‘[2]

ماں کا حصہ دینے کے بعد باقی جائیداد بہن بھائیوں میں ا س طرح تقسیم کی جائے کہ بھائی کو بہن کے مقابلہ میں دو گنا حصہ ملے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

’’ اگر مر نے والے کے مرد اور عورتیں بہن بھائی موجود ہیں تو ایک مرد کو دو عورتوں کے برابر حصہ دیا جائے۔ ‘‘[3]

لیکن بہن بھائیوں کو جو کچھ دینا ہے وہ ماں کا حصہ نکالنے کے بعد دیا جائے ، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ’’مقررہ حصہ لینے والوں کو ان کے حصص دیے جائیں، اس کے بعد جو کچھ بچے وہ میت کے قریبی مذکر رشتہ داروں کے لیے ہے۔ ‘‘[4]

سہولت کے پیش نظر وصیت کے نفاذ کے بعد باقی ترکہ کو چھ حصوں میں تقسیم کر دیا جائے، ان میں ایک حصہ والدہ کو ، دو دو حصے دونوں بھائیوں کو اور ایک حصہ بہن کو دے دیا جائے، بھائیوں کی موجودگی میں بھتیجا محروم ہو گا، اگر بیمار شخص کو واقعی اللہ تعالیٰ کا ڈر ہے تو اسے درج بالا تفصیل کے مطابق عمل کرنا چاہے ۔ وہ کوئی ایسا کام نہ کرے جو شریعت کے خلاف ہو ، اگر وہ ایسا کرے گا تو قیامت کے دن اس سے ضرور باز پرس ہو گی۔ (واللہ اعلم )


[1] النسا ء:۱۳۔۱۴۔

[2] النسا ء :۱۱۔

[3] النسا ء:۱۷۶۔

[4] بخاری، الفرائض، ۶۷۳۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:297

محدث فتویٰ

تبصرے