سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(327) ترکہ سے حج کروانا

  • 20588
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 634

سوال

(327) ترکہ سے حج کروانا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک عورت اپنے شوہر، والد ور بہن بھائیوں کو چھوڑ کر فوت ہو ئی ہے، اس کی ایک بچی ، اس کی وفات سے پہلے فوت ہو چکی تھی، اس نے کچھ رقم چھوڑی ہے، ورثا کو کتنا حصہ ملے گا، نیز اگر اس نقدی سے کسی کو حج کروا دیا جائے تو کیا یہ صحیح ہے، کتاب و سنت کے مطابق فتویٰ دیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 اگر وہ اپنی زندگی میں حج کر نے پر قادر تھی اور شرائط حج بھی میسر تھیں تو اس کے ترکہ سے کسی کو حج کروا دیا جائے اگر وہ زندگی میں حج کر نے کی طاقت نہ رکھتی تھی تو ورثا کی رضا مندی سے کسی دوسرے کو حج کرایا جا سکتا ہے، حج و عمرہ سے اگر کچھ رقم بچ جائے تو اس کے ذمے قرض کی ادائیگی پھر وصیت کا نفاذ ہو نا چاہیے اگر قرض اور وصیت نہیں ہے تو اس کی نقدی کو دو حصوں میں تقسیم کر لیا جائے، ایک حصہ خاوند کو دیا جائے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اگر تمہاری بیویوں کی اولاد نہ ہو تو ان کے ترکہ سے تمہارا نصف حصہ ہے۔ ‘‘[1]

 جو بچی ماں کی وفات سے پہلے فوت ہو چکی ہے وہ خاوند کے حصہ پر اثر انداز نہیں ہو گی، دوسرا حصہ مرحومہ کے باپ کو دے دیا جائے کیونکہ وہ عصبہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :’’مقررہ حصے حقداروں کو دینے کے بعد جو باقی بچے وہ میت کے مذکر قریبی رشتہ داروں کا ہے ۔[2] میت کے بہن بھائی باپ کی وجہ سے ساقط ہیں، انہیں کچھ نہیں ملے گا ۔ اسی طرح جو بچی ماں سے پہلے فوت ہو گئی ہے اسے بھی کچھ نہیں ملے گا کیونکہ تقسیم میراث کی شرائط میں سے ایک یہ بھی شرط ہے کہ مورّث کی وفات کے بعد وارث زندہ ہو۔ اس مقام پر یہ شرط مفقود ہے۔ (واللہ اعلم)


[1] النسا ء :۱۱۔

[2] صحیح البخاری ، الفرائض :۶۷۳۵۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:296

محدث فتویٰ

تبصرے