سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(326) بیٹوں کی موجودگی میں پوتے کو حصہ دینا

  • 20587
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 615

سوال

(326) بیٹوں کی موجودگی میں پوتے کو حصہ دینا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے والد نے وصیت کر تے ہوئے کہا کہ میرا بڑا شادی شدہ بیٹا تو جائیداد کے حصہ کی خواہش لیے اس دنیا سے رخصت ہو گیا لہٰذا تم نے مرحوم بیٹے کی بجائے میرے پو تے کو جائیداد سے حصہ دینا کیا ہم پوتے کو بھی جائیداد سے حصہ دینے کے پابند ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مرنے کے بعد ترکہ کی تقسیم میں یہ اصول رکھا گیا ہے کہ قریبی رشتہ دار کی موجودگی میں دور کا رشتہ دار محروم ہوتاہے، امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے :’’پوتے کی وراثت جبکہ بیٹا نہ ہو ۔ ‘‘[1]  پھر اسے ثابت کر نے کے لیے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ  کا قول پیش کیا ہے کہ پو تا، بیٹے کی موجودگی میں وارث نہیں ہوتا ، پھر ایک حدیث ذکر کی ہے جسے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ  روایت کر تے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ مقررہ حصے ، حصے داروں کو دینے کے بعد جوبچ جائے وہ میت کے قریبی مذکر رشتے داروں کو دیا جائے گا۔ ‘‘[2]

قریبی مذکر رشتہ دار کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ دور والے رشتہ دار ، قریبی رشتہ داروں کی موجودگی میں محروم ہوں گے ، اس بنا پر یہ طے شدہ اصول ہے کہ بیٹوں کی موجودگی میں پو تے کو کچھ نہیں ملتا خواہ پوتا یتیم ہی کیوں نہ ہو، شریعت نے اس کا حل یہ پیش کیا ہے کہ فوت ہو نے والا وصیت کے ذریعے اپنی جائیداد سے کچھ حصہ نامزد کر دے ، یہ کچھ حصہ کسی صورت میں ۳/۱ سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ صورت مسؤلہ میں مرحوم کی وصیت غلط ہے ، اس پر عمل نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی پو تے کی بہنوں کو وراثت سے کچھ ملے گا ۔ ہاں اگر شرعی ورثا اپنی مرضی سے کچھ یتیم بچوں اور بچیوں کو دینا چاہیں تو اس پر شرعاً کوئی قد غن نہیں ہے لیکن وراثت سے انہیں بیٹوں کی موجودگی میں کچھ نہیں ملے گا۔  (واللہ اعلم )


[1] صحیح بخاری ، الفرائض ، باب نمبر ۷۔

[2] صحیح بخاری، الفرائض ، ۶۷۳۵۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:295

محدث فتویٰ

تبصرے