سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(325) چچا ، دادی اور نانی کا حصہ

  • 20586
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1191

سوال

(325) چچا ، دادی اور نانی کا حصہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے رشتہ داروں میں سے ایک شخص فوت ہوا ہے اس کا چچا، دادی اور نانی زندہ ہیں، اس کا ترکہ کیسے تقسیم ہو گا ، کتاب و سنت کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حدیث میں اس طرح کا ایک واقعہ بڑی تفصیل سے بیان ہوا ہے ۔ چنانچہ حضرت قبیصہ بن ذویب فرما تے ہیں : ایک دادی نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ  کے پاس آ کر اپنی وراثت کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے فرمایا :’’تمہارے لیے اللہ کی کتاب میں کوئی حصہ مقرر نہیں ہے اور نہ ہی سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مجھے تمہارے لیے کسی چیز کا علم ہے تم جاؤ میں لو گوں سے اس سلسلہ میں مشورہ کروں گا۔ ‘‘ پھر آپ نے لو گوں سے پوچھا تو حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ  نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دادی کو چھٹا حصہ دیا تھا، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ  نے دریافت فرمایا کہ تمہارے ساتھ کوئی اور بھی اس وقت تھا؟ حضرت محمد بن مسلمہ انصاری رضی اللہ عنہ  نے کھڑے ہو کر اس امر کی گواہی دی تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ  نے اسے نافذ کر دیا پھر ایک دوسری جدہ ( نانی ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کے پاس آئی اور اس نے اپنی وراثت کا سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ تمہارے لیے اللہ کی کتاب میں کوئی حصہ مقرر نہیں ہے لیکن یہی چھٹا حصہ ہے، اگر تم جمع ہو جاؤ یعنی دادی کے ساتھ نانی بھی ہو تو یہی چھٹا حصہ تمہارے درمیان تقسیم کیا جائے گا اور اگر تم میں سے کوئی اکیلی رہ جائے تو یہ حصہ اس کا ہے۔[1] چھٹا حصہ دینے کے بعد جو باقی بچے وہ میت کے چچا کے لیے ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے کہ شریعت کے مقررہ حصے ان کے حقداروں کو دو، پھر جو باقی بچ جائے وہ میت کے سب سے قریبی مرد رشتہ دار کو دے دیا جائے۔[2]چونکہ میت کے چچا کے علاوہ دوسرا کوئی رشتہ دار صورت مسؤلہ میں مذکور نہیں ہے لہذا دادی اور نانی کا چھٹا حصہ نکال کر باقی پانچ حصے چچا کو ملیں گے۔ (واللہ اعلم)


[1] مسند امام احمد ص ۳۲۶ ،ج ۵۔

[2] صحیح بخاری، الفرائض :۶۷۴۶۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:295

محدث فتویٰ

تبصرے