السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک آدمی کی زندگی میں اس کی شادی شدہ صاحب اولاد بیٹی فوت ہو گئی ، اس کے بعد وہ خود بھی فوت ہو گیا ، اس کی پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا زندہ ہے جبکہ فوت شدہ بیٹی کا ایک بیٹا اور بیٹی موجود ہے۔ بیوی بھی حیات ہے، اس صورت میں فوت ہونے والے کی جائیداد کس طرح تقسیم ہو گی ، اس کا نواسا اور نواسی بھی دعویدار ہیں کہ ہمیں بھی اس جائیداد سے حصہ دیا جائے، کتاب و سنت کے مطابق اس کا حل بتائیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن و سنت کے مطابق جائیداد کی تقسیم کا ایک اصول یہ ہے کہ میت کے ساتھ اگر کسی کا قریبی رشتہ ہے تو اس کی موجودگی میں دور والا رشتہ دار محروم ہو تا ہے۔ مثلاً بیٹے کی موجودگی میں اس کا پوتا اور بیٹی کی موجودگی میں اس کا نواسا وغیرہ محروم ہوتے ہیں، چونکہ صورت مسؤلہ میں میت کے قریبی رشتہ دار بیٹا اور بیٹیاں موجود ہیں اس لیے ان کی موجودگی میں نواسا اور نواسی محروم ہیں، ہاں اگر ان کی والدہ مرحوم کی وفات کے بعد فوت ہو تی تو نواسے اور نواسی کو اپنی ماں کا حصہ ملنا تھا لیکن وہ اپنے باپ کی زندگی میں فوت ہو گئی لہذا اسے یا اس کی اولاد کو مرحوم کی جائیداد سے کچھ نہیں ملے گا، سوال سے معلوم ہو تاہے کہ مرحوم کی وفات کے بعد اس کی بیوی، بیٹا اور پانچ بیٹیاں زندہ ہیں۔ انہیں حسب، ذیل تفصیل سے حصہ دیا جائےگا۔
1 خاوند اگر صاحب اولاد ہو تو اس کی جائیداد سے ایک بیوی یا متعدد بیویوں کو آٹھواں حصہ ملتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’اگر تمہاری اولاد ہے تو بیویوں کے لیے آٹھواں حصہ ہے۔ ‘‘[1]
بیوی کو آٹھواں حصہ دینے کے بعد باقی جائیداد اولاد میں اس طرح تقسیم کی جائے کہ بیٹے کو بیٹی کے مقابلہ میں دو گنا حصہ ملے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد کے متعلق حکم دیتا ہے کہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہو گا۔ [2]
آسانی کے پیش نظر کل جائیداد کے آٹھ حصے کر لیے جائیں، ان میں سے ایک بیوی کو ، دو حصے بیٹے کو اور ایک ایک حصہ ہر بیٹی کو دے دیا جائے ، نواسا اور نواسی کو اس جائیداد سے کچھ نہیں ملے گا، اگر مرحوم کی اولاداپنی خوشی سے کچھ دینا چاہیں تو الگ بات ہے۔ (واللہ اعلم )
[1] النساء :۱۲۔
[2] النسا ء :۱۱۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب