السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرے والد گرامی فوت ہوئے، پسماند گان میں بیوہ، تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں، ان کا ترکہ دس مرلہ کا ایک مکان ہے ، ہر ایک کو کتنا حصہ ملے گا، کتاب و سنت کی روشنی میں فتویٰ درکار ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بشرط صحت سوال واضح ہو کہ سب سے پہلے میت کے ترکہ میں سے اس کے کفن و دفن کے اخراجات نکالے جائیں پھر اس کے ذمے جو قرض ہے وہ اتارا جائے اور شرعی حدود میں رہتے ہوئے اس کی وصیت کو پورا کیا جائے ، اس کے بعد جو مال بچے اسے ورثاء میں تقسیم کیا جائے ۔ صورت مسؤلہ میں میت کے ترکہ سے بیوہ کا آٹھواں حصہ ہے کیونکہ میت صاحب اولاد ہے اور بیوہ کا حصہ دینے کے بعد باقی ۸/۷ ترکہ اولاد میں اس طرح تقسیم کیا جائے کہ لڑکے کو ایک لڑکی سے دو گنا حصہ ملے ۔ سہولت کے پیش نظر کل جائیداد کے چونسٹھ حصے کیے جائیں اور بیوہ کو آٹھ حصے ، ہر لڑکے کو چودہ اور ہر لڑکی کو سات ، ساتھ حصے دیے جائیں۔ درج ذیل صورت میں مکان کی مالیت کو تقسیم کر لیا جائے۔
بیوہ : ۸لڑکا :۱۴لڑکا :۱۴لڑکا:۱۴لڑکی:۷لڑکی :۷کل: ۶۴
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب