السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر باپ سے پہلے بیٹا فوت ہو جائے تو دوسرے بیٹوں کی موجودگی میں اسلامی قانون کے مطابق باپ کے فوت ہو نے کے بعد اس کے یتیم پوتے پوتیاں حصہ نہیں لے سکتے جبکہ پاکستانی قانون انہیں مرحوم بیٹے کی جگہ حصے دار بنا تا ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر کوئی پاکستانی قانون کا سہارا لے کر حصہ وصول کر تاہے تو شریعت کی خلاف ورزی کا گناہ کس کے سر ہو گا، وضاحت فرمائیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شریعت نے وراثت کے سلسلہ میں الاقرب فالاقرب کے قانون کو پسند کیا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو رشتہ دار میت کے قریب تر ہو گا اسے وارث بنایا جائے گا اور اس کے مقابلہ میں دور والے رشتہ دار کو محروم ہونا پڑے گا۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔﴿وَلِکُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِیَ مِمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ ﴾ [1]
’’ہر ایک کے لیے ہم نے اس ترکہ کے وارث بنائے ہیں جسے والدین اور قریب تر شتہ دار چھوڑ جائیں۔‘‘
چونکہ بیٹا درجہ کے اعتبار سے پوتے کی نسبت قریب ترہے ، اس لیے پو تے کے مقابلہ میں بیٹا وارث ہو گا۔ اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ’’ترکہ کے مقررہ حصے، ان کے حقداروں کو دو پھر جو بچ جائے وہ میت کے سب سے زیادہ قریبی مذکر رشتہ دار کیلئے ہے۔ ‘‘[2]
اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ مقررہ حصہ لینے والے کے بعد وہ رشتہ دار وارث ہو گا جو میت کے قریب تر ہو گا ۔ چنانچہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ پوتا، بیٹے کی موجودگی میں وارث نہیں ہو گا۔ اس پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے :’’پوتے کی وراثت جبکہ بیٹا موجود نہ ہو ۔ ‘‘[3]
اس قدر صراحت کے باوجود اگر کوئی ملکی قانون کا سہارا لے کر شرعی قانون کو پامال کر تاہے تو اسے درج ذیل حدیث کو سامنے رکھنا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
’’اگر میں (چرب زبانی سے متاثر ہو کر ) ایک شخص کو کسی دوسرے مسلمان کا حق دینےکا فیصلہ کر دوں تو وہ آگ کا ٹکڑا ہے، اب اس کی مرضی ہے اسے لے لے یا چھوڑ دے۔ ‘‘[4]
ان احادیث کی روشنی میں پاکستانی قانون کا سہارا لے کر شریعت کی خلاف ورزی کرنا بہت بڑا جرم ہے۔ (واللہ اعلم )
[1] النساء:۳۳۔
[2] بخاری ، الفرائض:۶۲۳۴ ۔
[3] صحیح بخاری، الفرائض ۔
[4] بخاری ، المظالم:۲۴۵۸۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب