سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(306) وراثت کا ایک مسئلہ

  • 20567
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 617

سوال

(306) وراثت کا ایک مسئلہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک آدمی فوت ہوا، پس ماندگان میں بیوہ، والدین، دو بھائی اور تین بہنیں ہیں، اس کی جائیداد کیسے تقسیم ہو گی ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 بشرط صحت سوال صورت مسؤلہ میں وصیت کے نفاذ اور قرض کی ادائیگی کے بعد مرحوم کی منقولہ جائیداد سے چوتھائی حصہ بیوہ کیلئے ہے کیونکہ خاوند کی اولاد موجود نہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اور جو مال تم چھوڑ جاؤ اگر تمہاری اولاد نہیں تو بیویوں کا اس میں چوتھا حصہ ہے۔ ‘‘[1]

والدین یعنی ماں باپ دونوں کا چھٹا چھٹا حصہ ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اور میت کے ماں باپ یعنی دونوں میں سے ہر ایک کا متروکہ جائیداد میں چھٹا چھٹا حصہ ہے۔‘‘[2]

ان ورثا ء کے مقررہ حصے دینے کے بعد جو باقی بچے وہ باپ کا ہے، کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اگر میت کے بہن بھائی ہوں تو ماں کا چھٹا حصہ ہے۔‘‘[3]

اس صورت میں باپ کا حصہ مقرر نہیں بلکہ اسے بچا ہوا دیا جائے گا، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :’’مقررہ حصہ لینے والوں کو ان کے حصے دیے جائیں اور جو باقی بچے وہ میت کے مذکر قریبی رشتہ دار کا ہے۔ ‘‘[4]

مذکورہ صورت میں میت کا قریبی رشتہ دار باپ ہے ، قرآن کریم کی صراحت کے مطابق میت کے بہن بھائی اس وقت وارث بنتے ہیں جب میت کی اصل یعنی باپ داد ا ور نہ ہی اس کی فرع یعنی اولاد وغیرہ موجود ہو جیسا کہ سورۃ النساء آیت نمبر ۱۷۶ میں ہے، اس لیے بہن بھائی باپ کی موجودگی میں محروم ہیں۔ سہولت کے پیش نظر جائیداد کے بارہ حصے کر لیے جائیں، بیوہ کو تین، باپ کو دو اور ماں کو بھی دو ، یہ سات حصے ہوئے اور باقی پانچ حصے باپ کو بحیثیت عصبہ کے دیے جائیں یعنی :

بیوہ (۳) ماں (۲)باپ(2+5=7) دو بھائی (محروم )تین بہنیں (محروم )


[1] النساء :۱۲۔

[2] النساء :۱۱۔

[3] النساء :۱۲۔

[4] بخاری، الفرائض۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:283

محدث فتویٰ

تبصرے