السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرے دادا نے مر نے سے پہلے وصیت نامہ لکھا کہ میں نے اپنی بیٹیوں کو جہیز کی صورت میں ان کا حق دے دیا ہے ، لہذا وہ میری جائیداد سے کچھ لینے کا حق نہیں رکھتیں، کیا ایسی وصیت پر عمل کیا جا سکتاہے ؟ اگر نہیں تو کیا اس کی اصلاح ہو سکتی ہے ؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
چند شرائط کے ساتھ بیٹیوں کو جہیز دینے میں کوئی حر ج نہیں، محدثین نے با قاعدہ جہیز کے متعلق کتب حدیث میں عنوان بندی کی ہے ، لیکن ہمارے ہاں یہ رسم رائج ہے کہ بیٹیوں کو جہیز دے کر انہیں جائیداد سے محروم کر دیا جا تا ہے جیسا کہ سوال میں ذکر کر دہ وصیت نامے سے معلوم ہو تا ہے ایسا کرنا شرعاًجائز نہیں۔ دور جاہلیت میں بھی بیٹیوں کو جائیداد سے محروم کیا جا تا تھا لیکن وہ لوگ اس محرومی کو کسی اور سبب کے ساتھ مر بوط کر تے تھے لیکن اس روشن خیالی کے دور میں بھی جہیز کی آڑ میں بیٹیوں، بہنوں کو جائیداد سے محروم کیا جا تا ہے۔ حالانکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ماں، باپ اور خویش و اقارب کے ترکہ میں مر دوں کا حصہ بھی ہے اور عورتوں کا بھی ،خواہ وہ مال کم ہو یا زیادہ، اس میں ہر ایک حصہ مقرر کیا ہوا ہے۔ ‘‘[1]
اسلام سے قبل ایک یہ بھی ظلم روا رکھا جا تا تھا کہ عورتوں اور چھو ٹے بچوں کو وراثت سے حصہ نہیں دیا جا تا تھا اور صرف بڑے لڑکے جو میدان جنگ میں لڑنے کے قابل ہو تے ، سارے مال کے وارث قرار پا تے تھے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مر دوں کی طرح عورتوں اور چھو ٹے بچوں کو بھی والدین اور رشتہ داروں کے مال میں حصے دار قرار دیا ہے۔ انہیں کسی صورت میں محروم نہیں کیا جائے گا۔ صور ت مسؤلہ میں بیٹیوں کو جہیز کی آڑ میں جہیز سے محروم کیا گیا ہے جو شرعاًحرام اور ناجائز ہے ۔ ایسا وصیت نامہ قطعاً ناقابل عمل ہے ، یہ وصیت نامہ کوئی پتھر کی لکیر نہیں کہ اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کی اصلاح کرنا ضروری ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’ہاں جو شخص وصیت کر نے والے کی جانب داری یا طرفداری کا اندیشہ رکھے تو ان میں اصلاح کروا دے ، ایسے حالات میں اس پر کوئی گناہ نہیں، اللہ تعالیٰ بخشنے والا، مہر بان ہے۔‘‘[2]اس آیت کے پیش نظر غلط وصیت نامے کی اصلاح ضرور ی ہے جس کی یہ صورت ہے کہ اس وصیت نامے سے اس شق کو حذف کردیا جائے، اگر بزرگ فوت ہو جائے تو شریعت کے مطابق انہیں ان کا حصہ دیا جائے ۔ (واللہ اعلم)
[1] النساء :۷۔
[2] البقرة :۱۸۲۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب