السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے والد محترم فوت ہو گئے ہیں، پسماندگان میں ان کی بیوہ، تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں، مجموعی طور پر ان کا ترکہ چھتیس لاکھ کے لگ بھگ ہے، اس جائیداد کو مذکورہ ورثاء میں تقسیم کیا جائے ۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جب آدمی فوت ہو تاہے تو ترکہ تقسیم کر نے سے پہلے تین قسم کے حقوق کو ادا کرنا ضروری ہو تاہے۔
1 اس کی تجہیز و تکفین اور تدفین پر اٹھنے والے اخراجات اس کے ترکہ سے ادا کیے جائیں۔ 2اس کے ذمے جو مالی واجبات یعنی قرض وغیرہ ہو اسے ادا کیا جائے۔3جائز حد تک اس کی جائز وصیت کو اس کے ترکہ سے پورا کیا جا سکتا ہے۔ ان حقوق کی ادائیگی کے بعد ترکہ تقسیم کرنا چاہیے۔ صورت مسؤلہ میں بیوہ کیلئے آٹھواں حصہ ہے کیونکہ مرحوم کی اولاد موجود ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اور اگر تمہاری اولاد ہے تو ان بیویوں کو تمہارے ترکہ کا آٹھواں حصہ ملے گا۔ ‘‘[1]
بیوہ کا حصہ نکالنے کے بعد جو باقی بچے وہ اس کی اولاد میں اس طرح تقسیم کیا جا ئے کہ لڑکے کو لڑکی سے دو گنا ملے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اللہ تعالیٰ تمہیں، تمہاری اولاد کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے ۔‘‘[2]
بیوہ کا حصہ نکالنے کے بعد جو باقی بچے وہ اس کی اولاد میں اس طرح تقسیم کیا جائے کہ لڑکے کو لڑکی سے دو گناملے، ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اللہ تعالیٰ تمہیں ، تمہاری اولاد کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے ۔ ‘‘[3]
سہولت کے پیش نظر مذکورہ بالا حقوق کی ادائیگی کے بعد باقی ترکہ کے ۷۲ حصے کر لیے جائیں، ان میں سے آٹھواں حصہ یعنی نوحصے بیوہ کو پھر چودہ حصے ایک لڑکے کو اور سات حصے ایک لڑکی کو دیے جائیں، چونکہ قابل تقسیم ترکہ چھتیس لاکھ ہے۔ اسے جب بہتر (۷۲)پر تقسیم کیا تو ایک حصہ پچاس ہزار بنتا ہے : لہذا اس کی تقسیم حسب ذیل ہو گی ۔
بیوہ ۔/50.000 x9 ایک لڑکا ۔/50.000 50 x 14 = ۔/7.00.000 ایک لڑکی 50.000 x 7= ۔/3.50.000 پڑتال : بیوہ کا حصہ ۔/50.000 x 9 = ۔/4.50.000 3 لڑکوں کا حصہ ۔/7.00.000 3 x = ۔/21.00.000 3 لڑکیوں کا حصہ ۔/50.000 3 3 x = ۔/10.50.000 میزان : ۔/36،00،000 چھتیس لاکھ
[1] النساء:۱۲۔
[2] النساء :۱۱۔
[3] النساء :۱۱۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب