السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
صابر بٹ نامی ایک شخص فوت ہوا، اس کی تین بیٹیاں اور تین بھتیجے موجود ہیں، اس کے ذمہ ایک لاکھ روپیہ کاروباری قرضہ ہے جبکہ اس کی جائیداد دس لاکھ کی مالیت رکھتی ہے، اس کی شرعی تقسیم کیسے ہو گی؟ کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
میت کی مال میں سے پہلے کفن و دفن کے اخراجات منہا کیے جائیں پھر قرض کی ادائیگی ہونی چاہیے، اس کے بعد مال کی تہائی حصے سے وصیت پوری کی جائے بشر طیکہ کسی وارث کیلئے یا نا جائز کام کے لیے نہ ہو، پھر باقی ماندہ ترکہ کو ورثاء میں تقسیم کیا جائے۔ صورت مسؤلہ میں میت کی جائیداد دس لاکھ ہے اور ایک لاکھ روپیہ اس کے ذمے قرضہ ہے، قرض کی ادائیگی کے بعد نو لاکھ روپیہ قابل تقسیم ہے، اس میں سے دو تہائی بیٹیوں کیلئے جو چھ لاکھ بنتا ہے ، اس سے ہر بیٹی کو دو دو لاکھ روپیہ دیا جائے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’اور اگر مونث اولاد دو سے زائد ہوں تو ان کیلئے اس کے ترکہ سے دو تہائی ہے۔‘‘[1]
اور باقی تین لاکھ اس کے تین بھتیجوں کیلئے ہے ، ہر بھتیجے کو ایک ایک لاکھ روپیہ دیا جائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
’’مقرہ حصہ لینے والوں کو ان کا حصہ دینے کے بعد باقی ترکہ میت کے مذکر قریبی رشتہ داروں کو دیا جائے ۔‘‘ [2]
حصص کی تقسیم حسب ذیل ہو گی :
میت /۹بیٹی :۲بیٹی :۲بیٹی :۲بھتیجا :۱بھتیجا :۱بھتیجا :۱
پڑتال :دو لاکھ +دو لاکھ +دو لاکھ +ایک لاکھ +ایک لاکھ +ایک لاکھ=نو لاکھ )(واللہ اعلم )
[1] النساء : ۱۱۔
[2] صحیح البخاری ، الفرائض :۶۷۳۲۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب